یقین
ابتداء ہے رب جلیل کہ با برکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ جو زمین کی پہلی سطح سے لے کر آ سمان کی آخری بلندی تک ہر چیز کا مالک ہے۔ جو لفظ کن سے کائنات تخلیق کرتا ہے۔ جو مشرق و مغرب کا مالک ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں ہر ذی روح کی جان ہے۔ جو چیونٹی سے لے کر ڈائناسور تک کا خالق ومالک و رازق ہے۔ جو رزق لیکر بھی آزماتا ہے اور دیکربھی ۔ وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے جسے چاہے ذلت ۔جو انسان کی شاہ رگ سے بھی قریب ہے۔ جو حاکم ہے اور یہ ساری دنیا اس کی محکوم ۔ بےشک وہ اللہ اپنی ذات، صفات میں وحدہ لا شریک ہے۔
تخلیق کائنات کے بعد جب انسان کو تخلیق کیا گیا یا تو اس کی ذات میں اچھائی اور برائی کا مادہ شامل کردیا، اور بتلایا کہ اچھائی جنت جبکہ برائی کی منزل جہنم ہے۔ اور اپنانے کا اختیار انسان کو دے دیا۔ تو صالحین نے جنت اور بدکاروں نےجہنم پائی۔ لیکن بعض اوقات اچھے کام کرنے والے بھی عذاب کا شکار کیوں ہوتے ہیں ۔۔؟ مشرکین تو کفر کی بنا پر جبکہ مسلمان نااُمیدی،مایوسی کے باعت اللہ سے دور ہوتے جا رہے۔ ہمارا نصیب مقدر پہلے سے لکھا جا چکا ہے اور انسان کو تاکید کی جاتی ہے اس پر یقین رکھنے اور ثابت قدم رہنے کی۔ مقدر کے لکھےکو دعا کے سوا اور کوئی طاقت نہیں بدل سکتی، لیکن ہم کیا کرتے ہیں جب بھی کوئی آزمائش آتی ہے دعا کرنے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کی بجائے خدا کی ذات اقدس سے شکوے شکایات کرنے لگتے ہیں اللہ سے اس مشکل کی آسانی کی دعا کرنے کی بجائے انسان سے مدد مانگتے ہیں ۔انسان سے مانگتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ہماری طرح فانی ہے بے بس مجبور لاچار ہے اگر وہ دے گا بھی تو اللہ کے دیے ہوئے میں سے تو بہتر نہیں کہ ہم براہ راست خدا سے طلب کریں۔
انسان جو سوچتا ہے اسی کی چاہ کرتا ہے اگر مل جائے تو ٹھیک نہ ملے تو نہ امیدی نہ شکرا پن جبکہ اللہ جو ہمیں عطا کرتا ہے بہترین ہوتا ہے اور جو نہیں کرتا اس میں کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد اگر کوئی اس سے پیارکرتا ہے یا فکرمند پریشان ہوتا ہے تو وہ صرف ایک ماں ہوتی ہے جو باقی سب سے زیادہ اسے چاہتی ہے ماں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی پہ آنے والی ہر مشکل وہ سہہ لےلیکن اولاد محفوظ رہے۔ تو وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے کیسے اکیلا چھوڑ سکتا ہے کیوں بھول سکتا ہے تمہیں، جبکہ اس نے وعدہ کیا ہے تمہیں رزق، سکون، عزت، محبت دینے کا۔
انسانی فطرت ہے کہ ہمیں دوسروں کی ظاہری اچھائی اس کی جانب مائل جبکہ برائی اس سے متنفر کرتی ہے، لیکن یہ صرف اللہ ہی ہے جوہم گناہوں سے چور انسانوں سے محبت کرتا ہے ہمارے سب راز جانتے ہوئے بھی دوسروں پرعیاں نہیں کرتا ،ہزار گناہوں کے باوجود ہماری آنکھ سے نکلنے والے ایک آنسوں پرہمیں معاف کر دیتا ہے ہماری توبہ قبول کرتا ہے ،ہمیں بخش دیتا ہے اور بدلے میں جنت عطا کرتا ہے۔
آزمائش تو شرط محبت ہے۔
خدا نے اگر کسی سے عشق کیا تو وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔تو کائنات میں سب سے زیادہ مشکلات تکالیف سختیاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برداشت کیں۔اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارہا آزمائش میں مبتلا کیا۔اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے نہیں بلکہ ہم مسلمانوں کے لئے تاکہ ہم ان کی زندگی سے بہترین نمونہ حاصل کر سکے۔ تاکہ ہم آزمائش میں بھی اللہ کی رحمت کے طلبگار رہیں اور ثابت قدم بھی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم آزمائش کا مقابلہ صبر اور یقین کے ساتھ کریں کہ یہ عارضی ہے جلد ختم ہونےوہ اللہ بہت مہربان رحمان ،رحیم بخشنے والا ہے۔ بدر میں 313 کو ایک ہزار پر فتح دے سکتا ہے نوح علیہ السلام کی کشتی کو طوفان سے بچا سکتا ہے ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو ٹھنڈا اور موسی علیہ السلام کی قوم کے لئے سمندر کو چیرکر رستہ جبکہ فرعون کے لیے پھندا بنا سکتا ہے ،یوسف علیہ السلام کو اندھے کنویں میں رزق دے سکتا ہے یعقوب علیہ السلام کو چالیس سال بعد بینائی عطا کر سکتا ہے تو اے بندہ خدا تمہیں کیوںکراکیلاچھوڑے گا۔
دل سے کبھی پکار کر تو دیکھو اس کے سامنے گرگرا کر سجدہ ریز ہو کر دعا کر کے تو دیکھو اگر وہ عرش و فرش کا مالک پوری کائنات کو تمہارا وسیلہ نا بنا دے تو کہنا۔ رب تو منتظر ہوتا ہے اپنے بندے کی پکار کا اس کی التجا کا اس کی توبہ کا۔ایک بار صدق دل سے اسکی بارگاہ میں واسطہ محمد مصطفی و آ ل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دے کر تو دیکھو اگر نہ ملے تو کہنا۔(یاد رہے تو بہ آدم علیہ السلام بھی واسطہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قبول ہوئی)
۔ تو مانگو نا خدا سے انسان کے سامنے بھی تو اپنے رونے روتے ہو ناں۔ کتنی عجیب بات ہے نا ہم خود کو پرفیکٹ معتبر اور نایاب سمجھتے ہیں اپنے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آتا لیکن مشکل میں فانی انسان سے کیوں کر امید۔ سوال تو اپنے سے معتبرذات سے کیا جاتا ہے نا جو صرف اللہ تعالی کی ہے۔ تو پھر بندے سے کیسا سوال۔۔۔؟
انسان اشرف المخلوقات ہو کر بھی اللہ سے مانگنے سے کتراتا ، اور حیوان لا علم،کم عقل ہونے کے باوجود بھی اللہ سے رجوع کرتا ہے ۔آہ۔۔۔ ہے نا عجیب بات آج کل کے حالات کے پیش نظر حیوان انسان سے بہتر ہے۔ دولت کی ہوس میں انسان انسان کی جان لینے سے بھی نہیں کتراتا،لیکن کوئی بھی حیوان اپنی نسل کے جانور کا شکار نہیں کرتا تو ہم سے بہتر ہی ہوئے ناں ۔۔۔
پرندے صبح رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں اور شام کوخالی ہاتھ اپنے گھونسلوں میں جاتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ جس نے آج رزق دیا ہے وہ کل بھی ضرور عطا کرے گا ۔ کیونکہ اس نے وعدہ کیا ہے۔ صد افسوس انسان رزق کماتا اور بچاتا بھی ہے لیکن اس کی ذات پر یقین نہیں۔ ناامیدی اور مایوسی کے باعث اس قدر دور ہو گیا ہے کہ توکل ہی نہیں کہ جس نے پیدا کیا ہے اس نے کھلانے کا وعدہ بھی کیا ہے اور جو نصیب اور مقدر میں لکھا ہے وہ ہر حال میں مل کر رہے گا۔ بے شک
۔بس امید اور توقع کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں دعا کرتے رہے وہ ضرور عطا کرے گا۔
دعا ہے کہ کہ اللہ تعالیٰ اللہ ہم سب کو سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق زندگی گزارنے، ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگنے، ہمیشہ صراط مستقیم پر چلنے ،دوسروں کا احساس کرنے اور قرآن پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
طالب دعا: عرفع علوی
************
No comments:
Post a Comment