Monday 7 September 2020

Ek aisi zuban jis per hum sab ko kaman Article


  
آرٹیکل


ایک ایسی زبان جس پر ہم سب کو ہو کمان

اردو ہماری قومی زبان ہے۔اردو کی تہزیب اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود بنی نوع انسان کی تشکیل یا پہچان  ۔برصغیر پاک و ہند میں سے جب امت مسلمہ کو ایک علیحدہ مملکت اور جمہوریت میں اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگیاں گزار نے کے لیے ایک ایسی پر فضا جگہ نصیب ہوئی جہاں کسی بھی دوسرے مذہب کی مداخلت کے بغیر خوشحالی اور ترقی لائی جا سکے۔
میرا یہ دعوی ہے کہ پاکستان کے کسی بھی مکین کو کسی ایک زبان پر وہ گرفت حاصل نہیں جو ہونی چاہیئے ۔آزادی ملی مگر پھر بھی غلامی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ۔آزادی کے 69 سال گزر گئے مگر یہاں کے مکینوں کو قومی زبان پر بھی کمان حاصل نہ ہو سکا۔جتنی زبانیں شاید پاکستان میں بولی جاتی ہیں شاید کسی ریاست یا ملک میں بولی جاتی ہو شاید اسی لیے ترقی کی دوڑ میں ہم ابھی تک بہت پیچھے ہیں ۔کسی ایک زبان کو سمجھنا اور اسی کو ملک کے اداروں میں رائج کروانا اس حد تک ضروری ہے جسطرح گندم کے آٹے کی اہمیت اللہ نے ہماری زندگیوں میں رکھی ہے۔کسی ایک زبان کو پوری طرح جاننا، سمجھنا اور اس پر پوری طرح اپنی گرفت رکھنا اور عوام اور حکمرانوں کا یکجا اس کی اہمیت سے واقفہونا اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہے ۔
ہمارے اسکو ل ہی لے لیں اب ۔۔۔اردو میڈیم اور انگلش میڈیم سکول ۔۔۔میرا سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ایک ریاست کے اسکول اور دو دو زبانیں ۔۔اگر اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کی چوائس کے یا ان کی سہولت کے لیے ایسا کیا جاتا ہےتو یہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہو گا کیونکہ میرے مشاہدے کے مطابق یہ سراسر حقیقت کے بر عکس ہو گا ۔۔
مثال کے طور پر:ایک بچہ جو اپنے ماں باپ کی واحد اولاد ہے ماں باپ کو بہت شوق ہے کہ کہ وہ اس علاقے کے سب سے اچھے انگلش میڈیم سکول میں داخل کروائے فی الحال اور فی الوقت وہ اسے اپنے علاقے کے بہت اچھے سکول میں داخل کرواتے ہیں اور خوش قسمتی سے وہ بچہ ہونہار ثابت ہوا اور وہ خود کو انگلش میڈیم سکول اور یہاں کے ماحول میں خود کو ڈھالنے لگا۔چار سے پانچ سال کے بعد جب وہی بچے کے دو اور بہن بھائی ہو گئے تھا بھی مڈل فیملی کا ۔لیول بڑھنے فیس بھی پہلے سے تین گنا بڑھی اور گھر کے افراد بھی بڑھنے سے اخراجات بڑھ گئے آخر اس بچے کے والدین کو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچے کو گورنمنٹ سکول میں بھجوانا بھجوانا پڑا ۔نیا سکول اور نیا ماحول اور میڈیم بھی اردو اب بچے کو اس ماحول میں ڈھلنے کے لئے کم از کم تین سے چار اگلے سال درکار ۔حالات سے مجبور بچہ خود کو اس ماحول میں بھی ڈھال لیتا ہے۔اردو میڈیم کے اکثر بچے دیکھے ہیں کہ جنھیں اردو پر تو کافی گرفت ہوتی ہے مگر انگریزی برائے نام ہی  آتی ہے جبکہ آج کے انگلش میڈیم سکول کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے میرا مطلب انگلش پر مکمل فوکس مگر اردو دور دور تک نہیں ۔وہ بچہ مڈل اس گورنمنٹ سکول سے اچھے گریڈ کیساتھ ساتھ پاس کر ہائی لیول میں پہنچتا ہے محنتی بچہ تھا خوب محنت کی اچھے گریڈ کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کر لیا ۔ماں باپ بہت خوش انتہا نہیں ان کی خوشی کی اب ان کے خواب بھی پہلے سے بڑے ہو گئے۔کالج کا انتخاب ہونے کے ساتھ مستقبل میں کچھ بننے کا انتخاب بھی ہو گیا ۔مطلب والدین اور بچے کے خیال کے مطابق بچہ میڈیکل میں جائے گا ۔ڈاکٹر بننا ہر دوسرے پاکستانی بچے کی خواہش ہوتی ہے۔۔۔اقبال نے کیا خوب کہا؛
      ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
       بہت نکلے میرے ارماںپھر بھی کم نکلے۔۔۔۔۔
اچھے گریڈ کی بنا پر کالج میں داخلہ ہو گیا مگر قسمت اور زندگی اسے اسی دوراہے پر لے آئی۔وہ بچہ میٹرک تو اردو میڈیم کر کے آیا مگر ایف۔ ایس ۔سی  انگلش میڈیم تھی۔وہ انگلش جانتا تو تھا مگر میٹرک لیول تک سائنس کے بہت سے ایسے الفاظ جو اردو میں تو بارہا پڑھ چکا تھا مگر انگلش میں بالکل نئے اور نا واقف تھے ۔ایک بار پھر انگلش میڈیم میں اس کی بنیاد بننے کا رخ تھا اور بنیاد کوئی دو چار دنوں میں تھوڑی بن جاتی ہے کم از کم وقت بھی درکار ہو تو ایک سال بھی کم ہے ۔اسے انگلش میڈیم سکول چھوڑے تقریبا سات یا آٹھ سال ہو چکے تھے ۔بچہ بہت محنتی تھا اور انٹر کا پہلا سال اختتام پذیر مرحلے پر تھا اور اسے سمجھتے سمجھتے اور اس لیول تک پہنچتے پورا سال لگ چکا تھا ۔امتحان قریب آگئے تھے مگر وہ فی الحال پیپرز دینے کی سیچویشن میں نہ تھا ۔آخر اسے امتحان رہنا پڑا کیونکہ وہ سال ضائع نہیں کر سکتا تھا ۔سخت تیاری کے باوجود وہ تسلی بخش امتحان نہ دے پیا مگر وہ تسلی بخش امتحان نہ دے پا یا مگر پھر بھی وہ پاسنگ مارکس کے لیے پر امید تھا ۔پیپرز سے فارغ ہو کر انٹر کے سیکنڈ ائیر کی تیاری شروع کر دی ۔انٹر کے  فرسٹ ائیر کا رزلٹ اس کی امید کے مطابق تھا مطلب ہر مضمون میں پاسنگ مارکس تھے ۔سیکنڈ ائیر میں اس نے خوب محنت کی ۔تیاری پچھلے سال کی نسبت کافی بہتر تھی اور پیپرز بھی کافی اچھے ہوئے ۔دونوں کلاسوں کے نمبر اکٹھے کرنے کے باوجود میڈیکل میں داخلہ  ملنا نا ممکن سی بات لگ رہی تھی ۔پھر بھی قسمت آزمانے کے لیے انٹری ٹیسٹ کی تیاری شروع ہو گئی ۔خوب تیاری کی گئی اچھی اور ہائی کلاس اکیڈمی جوائن کی گئی انٹری ٹیسٹ دیا گیا ۔مگر پھر بھی میڈیکل میں داخلہ نہ ہو پایا۔آخر اس محنتی طالب علم کو میڈیکل کی فیلڈ سے کو چھوڑ نا کیا بلکہ اس سے بالکل ہٹ کر سمپل بی۔اے کرنا پڑا ۔
کیا یہ قوانین درست ہیں جو ہمارے ملک میں رائج ہیں مطلب ایک پڑھنے والے بچے کو اردو اور انگلش میڈیم کے بیچ میں پس کر رہنا پڑتا ہے۔کئی ایک زبانیں ہمارے ملک میں پڑھی اور بولی جاتی ہیں اور مجبورا سب کو ساری زبانیں فی الوقت سیکھنا اور بولنا پڑتی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسکول ھائی لیول تک ایک ہی میڈیم کے ہو ۔مثلا" اگر انگلش آگے والے درجوں میں ضروری ہے تو پھر یہ میڈیمز نہ ہو کیونکہ پڑھنے بچے کے لیے انگلش اور اردو دونوں ایک جیسی ہے ۔ہمارے ملک کی ترقی اسی صورت میں ممکن ہے جب زبان ہو کر امن و سکون کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں نہ ہو ۔شاید آپ سب میری بات سے متفق ہو یا نہ ہو مگر ترقی پذیر ممالک کو ہی دیکھ لے چین ،امریکہ اور جاپان ۔کیا وہاں یہ طبقہ وار تعلیم مطلب امیروں کے لیے انگلش میڈیم ھائی سٹینڈرڈ اسکول اور مڈل طبقہ انگلش اور اردو میڈیم کےدرمیان کہی اور سب سے لوئر لیول کا طبقہ اردو میڈیم بھی بڑی مشکل سے پڑھ پاتا ہے ۔کیا یہ ممالک ایک زبان پر کمان رکھ کر ترقی نہیں کر رہے جو ہم نہیں کر سکتے۔کیا ہم بھی ان کی طرح اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا سکتے۔۔۔؟؟
سوچیں یک جان ہو کر کیا ہماری سوچ وسیع نہیں ہو سکتی دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح ۔۔۔؟؟جنھوں نے ہم سے بعد آزادی حاصل کی مگر جن سے آزادی 

حاصل کی ان سے بھی آگے نکل گئے اور کہی آگے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

  "   ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے

       بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدار ور پیدا"









No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...