پیار سے عشق کا سفر
تحریر: ’’سائرہ بلوچ‘‘
پیار انسان کی فطرت میں شامل ایک جزو ہے، بلکل اِسی طرح جس طرح سانس لینا، کھانا کھانا، پانی پینا، سونا، جاگنا، انسانی فطرت کے جزو ہیں، اِسی لیے ہم ہر انسان سے بحیثیت انسان پیار کرتے ہیں۔
محبت بھی پیار ہی کی طرح ایک فطری جزبہ ہے مگر یہ پیار سے کچھ بڑھا ہوتا ہے اِس میں ایک خاص بات ہے اور وہ یہ کہ یہ عموماً صرف ایک شخص سے ہوتی ہے، مگر کبھی کبھی ایک سے زیادہ لوگ بھی اِس کی تحریک کا سبب بن جاتے ہیں مگر اِس کی خاصیت یہ ہے کہ اِس جزبے کا محرک شخص باقی سب لوگوں سے خاص ہو جاتا ہے، اور اِس کے لیے بھی کسی باہمی رشتے کی ضرورت نہیں ہوتی، عموماً یہ مرد اور عورت کے درمیان ہوتی ہے مگر یہ ضروری نہیں یہ کسی کو کسی سے بھی ہوسکتی ہے، محبت اپنی خاصیت یونہی برقرار رکھتی ہیں۔
جبکہ عشق اِن دونوں سے الگ ایک خوبصورت ترین جزبہ ہے، اور اِس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ موحد ہوتا ہے، یعنی یہ جذبہ عمر بھر میں کسی ایک ہی ہستی کے لیے بیدار ہوتا ہے، یہ کبھی بھی ایک سے زیادہ لوگوں کے لیے نہیں ہوسکتا، البتہ اِس کی دو قسمیں ہیں۔
اور دونوں کی ابتداء ہی دیوانگی ہے، اور انتہا فنا پر ختم ہوتی ہے۔
’’ نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بساکیں دولت از گفتار خیزد
یعنی عشق صرف دیدار سے ہی پیدا نہیں ہوتا، بعض دفعہ محبوب کی باتیں سننے سے بھی آتش عشق بھڑک اٹھتی ہے۔اور پھر عقل ایک مقام پر جا کر رک جاتی ہے۔‘‘
’’ وہاں سے عشق کا آغاز ہوتا ہے، پھر عقل سے ماورا دنیا شروع ہوتی ہے، جسے دیکھ کے عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے۔‘‘
’’ جانتے ہو محبت اور عشق میں کیا فرق ہے؟؟‘‘
نہیں۔۔۔۔
’’ اپنے محبوب کو اپنی چاہت کا اظہار کرنے اور اس سے اس کی محبت پانے کی خواہش محبت ہے۔ لیکن اس کی محبت اس کی چاہت حاصل کرنے کے لیے اپنے رب کے سمانے گڑ گڑانا عشق ہے۔
کسی سے اپنی عقیدت کو ظاہر کرنے کےلیے زیادہ تر لفظ عشق استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لفظ ہماری محبت اور عقیدت کو بالکل صحیح انداز سے واضح کردیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عشق اور محبت وعقیدت میں بہت فرق ہے۔
عشق ایک دیوانگی ہے جو عاشق سے عقل و شعور کو ختم کرکے اسے پاگل پن میں مبتلا کردیتی ہے جس کے بعد اسے کسی قسم کے نفع ونقصان کی تمیز نہیں رہتی، بس اپنی خواہش کو پورا کرنے اور معشوق کو حاصل کرنے کا خیال اس پر ہر وقت حاوی رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کے کام سے عاجز ہوکر بےکار بن کر معاشرے میں عضو معطل بلکہ ایک بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مؤمن ومسلمان کو سب سے زیادہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کی آیات اور احادیث اس کی وضاحت کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر محبت الہٰی کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہِ›
ایمان والے اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
ہر کسی کو محبت نہیں ہوتی۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محبت کوئی لافانی جذبہ ہے محبت منفرد ہے اس سے جڑنے سے انسان بھی منفرد ہو جاتے ہیں۔ سو منفرد دکھنے کے لئے لوگوں نے خود ساختہ محبت کا ذکر الاپنا شروع کر دیا۔
کبھی تم نے وہ کوئلہ دیکھا ہے جو بظاہر تو بجھ گیا ہو، لیکن اس کے اندر ایک چنگاری سلگتی ہو۔ اس کوئلے کے اوپر سفید راکھ کا غلاف چڑھ جاتا ہے، ایسا ہی ایک غلاف تمہارے احساسات پر چڑھ گیا ہے، راکھ جیسا غلاف اور ایسی ہی ایک چنگاری تمہارے اندر دہکتی ہے جو کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ جو سلگتی ہے، بجھتی ہے، پھر سلگتی ہے
جس سے محبت کی جائے ، پھر اس سے مقابلہ کیسا ؟؟
محبت ابر کی چوٹی پہ پھیلی اک سفیدی ہے۔
زندگانی کا کھیل کبھی کبھار عجب موڑ پر آ جاتا ہے۔
جہاں آگے بڑھنے کے لیے تم کو کسی ایک ایسی چیز سے دستبردار ہونا پڑتا ہے جو تم کو سب سے زیادہ عزیز ہو۔‘‘
’’ میری سماعتیں چپ کی گونج کے کربناک بوجھ تلے دبی جارہی ہیں۔ آنکھوں میں انتظار کے موسم آکر یوں خیمہ زن ہوئے ہیں کہ مجھ سے رنگوں کی تفریق چھن چکی ہے۔
میں زندگی جینا چاہتی ہوں۔ لیکن اس نے مجھے نارسائی کی ان وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں قدم قدم پر منہ مانگی اذیت تو مل سکتی ہے، زندگی نہیں۔ قبل اس کے کہ میرے لفظ ٹوٹنے لگیں، میری نگاہ کی روشنی اندھیروں
’’ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﮔﺮ ﻋﯿﺐ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ , ﺗﻮ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﺒﮭﯽﮨﻤﺎﺭﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﯽ نہ جس سے محبت کی جائے، پھر اس سے مقابلہ کیسا ؟؟
اور تم گمراہی کے اس رستے پر ہو جہاں انسان اپنی انا کے لیے سب قربان کر دیتا ہے۔ تمہیں نا تو اس سے محبت ہے نا عشق وہ تمہاری انا اور ضد سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
اگر تمہیں اس سے محبت ہو تو تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، اگر رب نے اسے تمہاری قسمت میں لکھا ہے تو دنیا کی کوئی شے بھی تجھے اس سے جدا نہیں کرے گی اس رب کی طرف رجوع کرو۔
صرف وہی ہے جو تجھے اس مصیبت سے نکال سکتا ہے بیشک وہ رب انسان کا ظرف آزماتا ہے کہ وہ اس کی مخلوق کے ساتھ کیسے پیش آئے گا اور مصیبت میں اس رب کو کتنا یار کرے گا۔‘‘
*********************
ختم شد
No comments:
Post a Comment