افسانہ:
کاغذ کی دوستی
زندگی میں آپ کا سچا ساتھی پتہ ہے کون ہوتا ہے۔ اللّٰہ کے ساتھ سے تو کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو کبھی ساتھ چھوڑتا ہی نہیں ہے۔ لیکن ہم انسان ہے نہ ہم چاہتے ہیں کوئی ہو جو ہمارے سامنے بیٹھ کر ہمیں سُنے ، ہمیں دکھائی دے۔ اور پتہ ہے ایسا کون ہے سیدھی لکیروں والا صاف کاغذ۔ یہ کاغذ انسانوں کی نسبت زیادہ وفادار ہوتا ہے ۔ بس اسکی ایک شرط ہوتی ہے ۔ یہ چاہتا ہے اِسے ہمیشہ سنبھال کر رکھا جائے۔ جب تک ہم اِسے اہمیت دیتے ہیں یہ ہمارے راز سنبھال کر رکھتا ہے ۔
پتہ سب کی زندگی ایک کہانی ہے۔ اور ہر کوئی اس کو اپنے انداز میں پڑھ رھا ہے۔ بس زندگی کی کتاب میں یہاں اچھے ورق لکھے ہیں وہاں برے ورق بھی لکھے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کسی کے اچھے ورق پہلے آجاتے ہیں تو کیسی کے برے ۔۔ لیکن اچھے اور برے ورق ہر کہانی میں میں اپنے اپنے انداز میں لکھے ضرور ہیں ۔۔
اور ہم انسان ہمیشہ چاہتے ہیں کہ کوئی ہو جو ہماری اس کہانی کو سُنے ، اُکتاے بغیر کوئی ہو جو غور سے سُنے، پر یہ دنیا ہے یہاں بس سب کی پاس اپنے مطلب کی بات سننے کا وقت ہے
پتہ ہے اس کہانی کو بغیر مطلب کے کون پوری طرح اپنے اندر سمیٹ سکتا ہے۔ ایک سیدھی لکیروں والا کاغذ۔۔
میری زندگی کی ہر اچھائی اور برائی کو اپنے اندر سمیٹنے والا میرا بہت ہی اچھا اور سچا دوست کاغذ۔۔
یہ کبھی مجھے چھوڑتا نہیں ہے، میرے قلم کو اپنے اپر لکھنے سے روکتا نہیں ہے۔" ٹائم نہیں ہے " یہ نہیں کہتا۔ میری خوشی میرا غم اپنے اندر سمیٹ کر مجھے بکھرنے سے بچا لیتا ہے
میری یہ دوستی آٹھویں کلاس سے ہوئی ، پھر وقت اور لوگوں کے رویوں نے اِسے مظبوط کر دیا
یہ میری تنہائی کا ساتھی اور میرا ہمراز بن کے رہا ہے ۔
اس مصروف دور میں چاہے فیملی ہو یا دوست ہر کوئی بس اپنی ذمداری تک ہی آپکا ساتھ دیتا ہے ۔ آج کے دور میں فیملی کی ذمداری ضروریات پوری کرنا اور دوستوں کا کام سکول کالج میں آپکے ساتھ گھومنا اور آپکو کمپنی دینا ہے۔ یقین کرے اس سے زیادہ کسی کو آپکی زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔یہ ایک حقیقت ہے اور میں نے اس حقیقت کو بہت جلد مان لیا تھا۔ میں نے کاغذ کی دوستی کو اپنے لیے منتخب کر کے اپنی تنہائیوں کو اپنے تک محدود کر لیا تھا۔ میں نے کبھی کسی سے ٹائم نہیں مانگا تھا۔۔ مجھے لوگوں سے بیزاری ہونے لگی تھی۔ کسی کی بھی دوستی مجھے بس کچھ دن اچھی لگتی ، کچھ دن بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا کوئی مجھ پہ اپنا آپ مسلط کر رہا ہے۔ مجھے اُکتاہٹ ہوتی۔
میں تنہائی پسند تھی مگر ایک اداس اور خاموش لڑکی کبھی نہیں تھی ۔ میں اپنی سٹوڈنٹ لائف کو پوری طرح انجوائے کرتی ، ہنستی تھی ہنساتی تھی۔۔ لیکن بند کمرے میں رہنا پسند تھا مجھے۔
لیکن جب کوئی دوست مجھ سے ٹائم مانگے ، شکایت کرے ، حق جتائے مجھے اچھا نہیں لگتا تھا ، مجھے اُس سے بیزاریت ہو جاتی۔ شائد میں اپنی ذات پر کسی کا حق نہیں چاہتی تھی۔ نہ مجھے کسی کی ذات پہ اپنی دوستی کا حق جتانے کا شوق تھا۔جب کوئی دوست بننا چاہتی تو بنا لیتی مگر جب کوئی شکوہ شکایت کرے تو مجھے اپنی ذات کسی قید میں محسوس ہوتی۔
میں اپنا سب کچھ اپنی ڈائری میں لکھتی، جب مجھے کوئی ہرٹ کرتا میں روتی نہیں تھی بس کاغذ پہ لکھ دیتی ، ہرٹ کرنے والے کو بھی نہیں بتاتی ، میں ہنستی رہتی تھی اور لوگوں کو لگتا تھا مجھے کچھ بُرا نہیں لگتا۔۔ اس لئے کوئی کچھ بھی بول دیتا تھا مذاق کہہ کر۔
مجھے لوگوں کی ہمدردیاں نہیں پسند تھی، مجھے میری پرواہ دکھانے والوں سے چڑ ہوتی تھی۔ میرے پاس کاغز تھا قلم تھی مجھے کبھی کسی کی ضرورت پڑی ہی نہیں تھی۔
پھر زندگی کی کتاب میں ایک ایسا ورق آگیا جو پوری زندگی پر حاوی ہو گیا۔۔ جس کی شروعات اتنی خوبصورت تھی کہ پوری کتاب میں بس ایک ہی ورق کی لگی ۔ ایسا لگا کے اب ورق نہیں پلٹا جاے گا ۔
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کسی کی دوستی کبھی آپکی زندگی کو اتنا خوبصورت بنا سکتی ہے۔ مجھے اُس سے مل کر لگا کے میں غلط سوچتی رہی اب تک۔ میں سمجھتی رہی لوگ اپنے مطلب تک دوست ہوتے ہیں بس۔ وہ میری پہلی دوست تھی جس سے میں کبھی بیزار نہیں ہوئی تھی کبھی ۔ جس سے باتیں کرنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ میری دوست بن کر اُس نے میری تنہائیوں کو ختم کیا تھا۔ کبھی زندگی میں کوئی ایسا تھا ہی نہیں یا کسی کو اتنا حق دیا ہی نہیں تھا ۔ جو دن رات بات کرے ۔ وہ دن رات میری خبر رکھتی ، بات نہ ہو پریشان ہو جاتی۔۔ وہ سمجھاتی کہ دوسری دوستوں کے ساتھ اچھے سے رہا کرو لڑائی نہ کیا کرو ۔۔اُس کے آنے کے بعد میرے پاس اپنے سچے اور پُرانے دوست کے لیے وقت ہی نہ رہا۔ میں نے ساری ڈائریاں لاک اپ میں رکھ دی۔۔
دن میں کیا کیا۔۔ سب وہ پوچھتی
وہ میری تنہایاں اکیلے رہنے کی عادت سب مجھے جیسے بھول ہی گیا۔۔
بس پھر زندگی کی کتاب کا ورق پلٹنے کا وقت ہو گیا۔۔۔ وہ تو صرف ایک ورق ہی تھا اور میں نے پوری کتاب ہی سمجھ لیا تھا پھر کچھ یوں ہوا کہ اُس نے مجھے۔۔
"تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی" سے
"تمہارے ساتھ نہیں رہنا" تک کا سفر کروایا
دل میں اعلیٰ مقام دے کر مجھے
میری ہی نظروں سے گرایا۔۔۔۔۔
اندھیرے مٹا کر روشنی دکھا کر
پھر اس نے گہری کھائی میں گِرایا
دوست نہیں ہوتا کوئی ، قسمیں کھا کر بھی
چاہو تو مر جاؤ اب یوں اُس نے بتایا
کچھ ایسے اُس نے اس دوستی کو
نبھایا۔۔ کچھ ایسے اُس نے نبھایا
پتہ ہے آج میرے پاس اس کہانی کو سننے والا کوئی نہیں، کیونکہ کسی دوست کو اتنی اہمیت دینا، اتنا چاہنا
سننے والے کے لیے شائد ایک مزاق ہو۔
مگر آج جب درد دل سے عاجز آکر اپنے پرانے دوست کو لاک اپ سے نکالا تو آج بھی وہ میرے دکھ کو سمیٹنے کے لیے تیار تھا۔ آج بھی یہ کاغذ کا ٹکڑا انسانوں کو مات دے گیا
کیوں چھوڑا تھا یہ نہیں پوچھا اس نے۔۔ بس جو کسی کو نہیں کہہ سکتے وہ کہو ۔۔۔
پتہ ہے دوست تو اب بھی بہت ہے پر اب یقین باقی نہیں رہا نہ کسی دوستی کی ضرورت ۔ اب اپنی ذات کے اندھیروں میں رہنا اچھا لگتا ہے
افسانہ نگار: آمنہ
٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment