PAGES

Contact Us

Contact Us


contact us on this email mobimalik83@gmail.com

17 comments:

  1. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  2. A. A I don't remember the name of the novel...the only thing I remember is the name of the girl was kunwal...she is from wealthy shahi Family...her father relative son come to their house and she was very arrogant...but slowly she changes herself for him.. ..Learn painting and in the end they got hitched.. ..Can you tell me the name plz

    ReplyDelete
    Replies
    1. Main post karti hoon aap ki request then i will lwt you know

      Delete
  3. Hy :mujhe Ek novel nahi mil rha plz is story m do Bhai h Ek ka name gul Sher h or dusre ka name gul bakht h gul Sher ko lakri se muhabat or phr shadi ho jati h lakin gul Sher maar jata h or phr gul bakht us ki mot ka badla us lakri se Le GA plz jis ko b is ka name malum ho bata dena thanks

    ReplyDelete
    Replies
    1. Hey ,
      main request post karti hoon then aap ko batati hoon jab mily agatou

      Delete
  4. Mehram e muhbat novel mn ny likha tha or mn ny nimra Ali ko publish krvany k lye dia tha ab Mera novel playstore py publish ho gya h lkn mjhy pta b ni tha kl meri frnd ny inform kia to pta chla .kindly mjhy btaen k mera novel playstore py kis ny publish krvaya

    ReplyDelete
  5. Kindly reply me as soon as possible .I m waiting for your reply

    ReplyDelete
  6. Kindly reply me as soon as possible

    ReplyDelete
  7. Halala novel Ki episodes kdr dy rahi h AP???

    ReplyDelete
  8. i want to ask does ezreadings pays new writers for there writing

    ReplyDelete
  9. تو جرگہ اس فیصلے پر پہنچا ہے کہ سردار شہباز خان کی

    پوتی یشال خان کا نکاح اس جمعہ کو سید باسط شاہ کے

    بیٹے ابتہاج شاہ
    سے کیا جاۓ گا۔وہاں موجود سب کی
    نظریں سردار شہباز کی طرف اٹھیں جن میں کسی کو
    غصہ اور کسی کو افسوس اور کسی کی نظروں میں
    انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی
    اور پشال جو بیٹھک منسلک جالی دار کھڑکی کے
    قریب سے گزر رہی تھی۔ یہ سب سن کر وہیں منجمد

    ہوگی۔

    اندر بیٹھے ابتہاج شاہ کے چہرے پر اپنے جان سے بھائی
    کو کھو دینے کا دکھ تھا اور غصے سے اس کی ماتھے کی
    رگیں تنی ہوئی تھیں
    کہ اتنے میں اک آواز گونجی

    نہیں ادا جان نہیں آپ کے پوتے کا کیا میں نہیں بگھت
    سکتی کیا مجھ سے آپ کا کوئی رشتہ نہیں۔۔۔۔ ہاں
    بولیں۔۔۔۔ اتنے کٹھور نہیں بنے میرے ماں باپ زندہ نہیں ہیں
    نہ ورنہ وہ یہ سب نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔وہ ایک دم چلائی
    تم یہاں کیا کر رہی ہو جاو یہاں سے۔۔۔۔وہ غصے سے
    دھاڑے

    کیوں مجھ سے پوچھے بغیر آپ مجھے آگ میں جھونک
    رہے اور میں اپنا دفاع بھی نہ کروں۔۔۔۔وہ چلائی
    اور اندر بیٹھے ابتہاج شاہ کی نظر بے ساختہ کھڑکی کی

    طرف گئی

    پر وہاں وہ چہرے کو دوسری جانب موز کے کھڑی تھی
    مجھے کمزور مت سمجھیں ادا جان۔۔۔۔میرا الله ضرور

    انصاف کرے گا۔
    ابتہاج شاہ کے دل نے چاہا کہ وہ ایک بار اس کا چہرہ
    دیکھے جو اتنی بہادری سے اپنا دفاع کر رہی تھی

    ادا جان غصے سے اٹھے تھے کہ اتنے میں زرقہ بی جو کہ
    يشال كى إتنى أونچی آواز سن کے بھاگی آئیں اس کو پکڑ
    کر اندر لے جانے لگیں کہ وہ اپنے ہوش وحواس کھوتی أن
    کی بازووں میں ہی ڈھلک گئی

    ReplyDelete
  10. مجھے اپنی تحریر بہجانا ہے
    آپ پلیس رسپانس دے
    کے کیا کرنا ہوگا

    ReplyDelete
  11. Mjhe as Novel ka name bata den jis mein larkai ka nam syed alam shah hota ha larki uski cousin hoti ha apni nani ka pas city mein rehti ha alam shah ka sath uska nikha bachpan mein ho chuka hota ha nani k marne k bd wo usy lene ata ha jis sai wo bhagti ha plss name btye

    ReplyDelete
  12. Please someone tell me novel name jis main hero ko choty bchy sy pyar ho jata hai bchy ka nam mikael hota hai phir hero us ki mother sy shadi kr leta hai

    ReplyDelete
  13. Please is novel na name bta dy ager kisi ko pta to
    بیٹا کیا تم خوش نہیں اتنی بڑی خوش خبری ملی ہے بیٹا بس ان شا اللہ ہے بار اللہ اپنی رحمت سے نوازے ...

    آہ اللہ نا کرے اماں بی.... اور پلیز آپ یہ بات کسی کو بھی نہیں بتایئں گی کسی کو بھی نہیں مطلب سائیں کو بھی نہیں

    اما بی کی بات پر وہ ترپ اٹھی تھی..

    اما بی اس کے لہجے کے کرب سے لیب بھیج گئی تھی ۔

    ساکت تو دروازے کے پاس کھرا وجود بھی ہوا تھا جو اپنی کاری کی کی لینے واپس آیا تھا اندر سے اما بی کی آواز پر دروازے پر ہی رک گیا تھا (میں باپ بنے والا ہوا اور وہ یہ خبر مجھ سے چھپنا)

    بیٹا ایسا تو نہ کہو سائیں جیسا اللہ نے بیٹا دیا اور دعا ہے انشاءاللہ اب بیٹی ہو جس سے حویلی میں رونق لگ جائے گی اور... ہو سکتا ہے اس خبر سے سائیں بھی تمہارے پاس لوٹ آئے.. آخری بات پر اماں بی نے نظرے چورائی۔

    اماں بی آپ کو کیا لگتا ہے مجھے بیٹی پسند نہیں اسنے ایک تھکی ہوئی سانس خارج کی مجھے بیٹا بیٹی دونوں ہی پسند ہے اپنی اولاد کس کو پیاری نہیں ہوتی لیکن اگر بیٹی ہوئی اور میری بیٹی کا نصیب مجھ جیسا ہوا تو.. آپ کو آپ کو پتہ ہے نا میں نے بیٹی ہونے کی قیمت چکائی ہے بابا نے جائداد خاندان سے باہر نہ چلی جائے اس لیے مجھے سائیں کے سر مسلط کر دیا جب سائیں مجھ سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتے تھے آہ ان چاہی ہونا بی کتنا بڑا دکھ ہے اماں بولتے بولتے اس کی ہچکیاں بندھ گئی اماں بی نے اپنے آنسو پلو سے صاف کیے ۔ .

    اور دیکھتے مجھے تو لگتا تھا لڑکیوں کا کوئی نہیں ہوتا(نا باپ نا شوہر) لیکن نہیں فزا جیسی بھی خوش نصیب لڑکیاں ہوتی ہیں جنہے سائیں جیسی محبت اور عزت کرنے والا شوہر ملتا ہے میں تکلف میں ہوتی ہوں تو سائیں کو پتا بھی نہیں ہوتا کے مجھے بھی کس کندھے کی ضرورت ہے فزا کی تکلیف پر کیسے ترپ اٹھے ہیں ابھی کا ہی دیکھ لیں فزا کی کال آئی سائیں کیسے شہر کو نکلے کے من پسند بیوی جو ہے...

    خیر سے ہوا ہم نے اپنے آنسو سختی سے صاف کیے ..

    میں اپنے بچے کے لیے امو جیسی ماں بلکل نہیں بنو گی جو اپنی اولاد کے لیے اسٹینڈ نا لے سکے..

    بیٹا تم سائیں سے اتنی بڑی بات کسے چھپا سکتی ہو وہ تمہارا شوہر ہے تمہارے سر کا سائیں

    شوہر.. وہ تلخی سے مسکرائی

    اماں بی اب سائیں کے لیے میرے دل میں کوئی جگہ نہیں پہلے عشق تھا اور یقین تھا کہ سائیں صرف میرے ہیں ..
    سائیں کی دوسری شادی کے بعد مجھے کوئی پرواہ نہیں میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہو شراکت داری برداشت کروں سائیں رہے اپنی زندگی میں خوش .. اب میں سائیں کے ساتھ نہیں رہوں گی..
    عشق اپنی جگہ لیکن مجھے بٹے ہوئے رشتے نہیں چاہیے.

    اس کے ارادے اور لہجے کی پختگی پر اماں بی خاموش اور باہر کھڑا وجود شاک میں تھا جیسے جسم میں جان ہی نہ ہو۔

    ReplyDelete
  14. Is ka name and writer name bata dein plzzz
    تو جرگہ اس فیصلے پر پہنچا ہے کہ سردار شہباز خان کی

    پوتی یشال خان کا نکاح اس جمعہ کو سید باسط شاہ کے

    بیٹے ابتہاج شاہ
    سے کیا جاۓ گا۔وہاں موجود سب کی
    نظریں سردار شہباز کی طرف اٹھیں جن میں کسی کو
    غصہ اور کسی کو افسوس اور کسی کی نظروں میں
    انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی
    اور پشال جو بیٹھک منسلک جالی دار کھڑکی کے
    قریب سے گزر رہی تھی۔ یہ سب سن کر وہیں منجمد

    ہوگی۔

    اندر بیٹھے ابتہاج شاہ کے چہرے پر اپنے جان سے بھائی
    کو کھو دینے کا دکھ تھا اور غصے سے اس کی ماتھے کی
    رگیں تنی ہوئی تھیں
    کہ اتنے میں اک آواز گونجی

    نہیں ادا جان نہیں آپ کے پوتے کا کیا میں نہیں بگھت
    سکتی کیا مجھ سے آپ کا کوئی رشتہ نہیں۔۔۔۔ ہاں
    بولیں۔۔۔۔ اتنے کٹھور نہیں بنے میرے ماں باپ زندہ نہیں ہیں
    نہ ورنہ وہ یہ سب نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔وہ ایک دم چلائی
    تم یہاں کیا کر رہی ہو جاو یہاں سے۔۔۔۔وہ غصے سے
    دھاڑے

    کیوں مجھ سے پوچھے بغیر آپ مجھے آگ میں جھونک
    رہے اور میں اپنا دفاع بھی نہ کروں۔۔۔۔وہ چلائی
    اور اندر بیٹھے ابتہاج شاہ کی نظر بے ساختہ کھڑکی کی

    طرف گئی

    پر وہاں وہ چہرے کو دوسری جانب موز کے کھڑی تھی
    مجھے کمزور مت سمجھیں ادا جان۔۔۔۔میرا الله ضرور

    انصاف کرے گا۔
    ابتہاج شاہ کے دل نے چاہا کہ وہ ایک بار اس کا چہرہ
    دیکھے جو اتنی بہادری سے اپنا دفاع کر رہی تھی

    ادا جان غصے سے اٹھے تھے کہ اتنے میں زرقہ بی جو کہ
    يشال كى إتنى أونچی آواز سن کے بھاگی آئیں اس کو پکڑ
    کر اندر لے جانے لگیں کہ وہ اپنے ہوش وحواس کھوتی أن
    کی بازووں میں ہی ڈھلک گئی

    ReplyDelete