دیکھا۔اسے میری پسند پر کوئی اعتراض
نہیں۔ کیونکہ جو مجھے پسند ہے وہ اسے بھی پسند ہے۔ داور خان اس کی ساری امید ٹوٹ چکی
تھی۔ وہ خود کو ہارا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ زاویار کسی بھی طرح اس کو ماہا سے بات کرنے
سے روکنے والا تھا۔ اور وہ کامیاب بھی ہوگیا تھا ۔اپنے مقصد میں۔
اب تم ماہا
سے کوئی بات نہیں کرو گے سمجھے۔
داور خان نے اس کو کھا جانے والی
نظروں سے دیکھا۔ اور بہت مشکل سے اور تکلیف سے بول رہا تھا ۔میں تمہیں اپنی محبت سونپ
رہا ہوں۔
یہ الفاظ بولتے ہوئے اس کی آنکھوں
سے آنسوں گرنے لگے تھے۔ اس کا دل ٹوٹا تھا۔
لیکن یاد رکھنا۔ میں ہمیشہ اس کے
ساتھ ہوں۔ اس کو اکیلا نا مت سمجھنا۔ اگر کبھی
اس کو کوئی تکلیف دی نا تو یاد رکھنا۔داور خان کا سامنا کرنا پڑے گا تمہیں۔ اور تم
سوچ نہیں سکتے کہ میں کیا کروں گا۔
اگر ماہا
تم سے محبت کرتی ہے تو اس کی خاطر میں اپنی محبت چھوڑتا ہوں۔یہ الفاظ وہ کیسے بول رہا
تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔
زاویار سے ایک فاتحانہ مسکراہٹ
سے اس کو دیکھا۔ کیونکہ وہ جس مقصد سے آیا تھا ۔ وہ مقصد پورا ہوگیا تھا۔

No comments:
Post a Comment