"یار 5 سال ہو گئے تجھے یہاں آئے ہوے کو نا تو پاکستان جاتا ہے نا کسی کو آنے کا کہتا ہے اور گھر میں کال بھی خود نہیں کرتا کیوں؟" سمیر نے اس سے آج سوال کر ہی لیا جو اس نے آج تک نہیں کیا تھا ۔
ایک ہفتہ پہلے انکا کنووکیشن ہوا تھا اور انکی ڈگری مکمل ہو گئ تھی فطرتاً جانا اب پاکستان چاہیے تھا مگر ایک ہفتے سے خلافِ معمول وہ سمیر کے ساتھ وقت گزار رہا تھا
مہتاب جو بڑی مہارت سے پیزا پر ڈیکوریشن کر رہا تھا اسکے سوال پر ہاتھ رکے
آنکھوں میں بے ساختی 10 سال پہلے کی دل کا تصور آ گیا اسکے تصور سے بھی مہتاب کی آنکھیں مسکرا جاتی تھیں۔
"بتا نا" سمیر اب اسکے پاس کاؤنٹر سے ٹیک لگاتے بولا نظریں اس پر ہی ٹکی تھیں جس کا چہرہ سپاٹ ہو گیا تھا
"ضرورت نہیں محسوس ہوئی کبھی" مہتاب نے مصروف سے انداز میں کہا
"کیوں۔۔۔۔ کوئی منتظر نہیں تیرا وہاں؟" وہ اسے جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا اسے کچھ کچھ نہیں پوری دال کالی لگ رہی تھی
مہتاب نے زرا سی گردن مور کر اسے دیکھا جو اسکے جواب کا منتظر تھا
"پتہ نہیں"مہتاب کے دل میں تو دل آویز ہی تھی اور پتہ نہیں وہ منتظر ہو گی اسکی کہ نہیں اسے کیا خبر!
"پتہ نہیں؟؟؟" سمیر کی چیخ نکلی
مہتاب نے گھورا اسے
"سن" مہتاب کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کیا
مہتاب نے آئیبرو اچکائے۔
"کون ہے وہ؟" ٹھوس لہجے میں پوچھا
اسکا لہجہ اتنا مضبوط تھا کہ مہتاب گڑبڑا گیا جیسے اس نے مہتاب کی چوری پکڑی ہو
"ک۔۔۔ک۔۔کون۔۔۔۔کوئی بھی نہیں"مہتاب اپنا بازو چھڑواتا مائیکروویو کی طرف بڑھا
"اچھا ۔۔۔ تو تو نہیں جانتا!" سمیر نے سینے پر بازو باندھے
مہتاب نے اگنور کیا اور اپنے دھیان مصروف رہا
"دل آویز۔۔۔ یہی نام ہے نا!" مہتاب کے کانوں میں دھماکہ کیا
وہ جو ٹائمر لگا رہا تھا اسکے کانوں میں پڑنے والا نام اسے منجمد کر گیا
اس نے تو سینچ سینچ کر اپنے دل میں اس کے لیے جزبات رکھے تھے آشکار کیسے ہو گئے ؟ اس نے تو یہ نام 10 سال پہلے لیا تھا اپنے لبوں سے اور اسکے بعد لینا چھوڑ دیا تھا اور اتنے سالوں بعد اسکا تذکرہ کانوں سے سننا اسکے جسم میں سنسناہٹ سی پیدا کر گیا بے اختیار ٹھنڈے ہاتھ پاؤں ہو گئے
وہ جھٹکے سے مڑا اورسمیر کو پھٹی نگاہوں سے دیکھا جو سینے پر بازو باندھے طنزیہ مسکان سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔
"ت۔۔۔ت۔۔۔و۔۔۔کیسے!"مہتاب کے منہ سے الفاظ ٹوٹ کر نکلے
سمیر ہنسا اور اسکی طرف آیا اسکی ساییڈ سے گزر کر اوون کی طرف ہوا اور ٹائیمر صحیح سے سیٹ کیا
"وہ دل۔۔۔۔کیا وہ اس قابل نہیں کہ اسکا زکر کیا جائے !"وہ اسکے سامنے آتا جان کر ایسے بولا
ایک سیکنڈ میں مہتاب کا غصہ آسمان ہر چڑھا
جھٹکے سے سمیر کے کالرز پکڑے اور پاس فریج سے اسے پن کیا
آنکھوں سے شرارے پھوٹ نکلے
"اسے دل۔۔۔ صرف میں کہتا ہوں ۔۔۔اور جس کا ذکر جس کا نام۔۔۔ اتنے سالوں سے میں اپنے زبان پر نہیں لایا۔۔ تو۔۔۔ اسکا نام ۔۔۔اتنے آرام سے کیسے لے گیا۔۔۔۔۔ کیسے ہمت کی اسکے لیے ایسے الفاظ ادا کرنے کی"اسکا ضبط جیسے کریدا گیا تھا اور جو ضبط کے خول میں وہ بند تھا اس خول کا صرف کونہ ٹوٹا تھا اور یہ اشترال اس کونے سے باہر نکل کر سمیر کے سامنے آیا تھا
ابهى تو سارا خول اترنا باقی تھا
سمیر سکون میں تھا اسے برا نہیں لگا کہ مہتاب اسکے گریبان تک گیا
"اگر اتنا پاسبان ہے اسکے نام کا۔۔۔ تو یہاں کیا کر رہا ہے! تو یہاں نام نہیں لے رہا وہاں کوئیی اسکا۔۔۔۔
"بکواس بند کر۔۔۔۔۔۔ چپ بلکل چپ" اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ دھاڑا
جھٹکے سے اسکے کالرز چھوڑتا مڑ گیا
کرسی پر بیٹھ گیا اور سر کے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ لیا۔
سمیر مسکرا دیا کیونکہ اسکا دوست کتنا پاگل تھا اس لڑکی کیلیے یہ تو آج بات کھلی تھی۔
سمیر مسکراتا اسکے ساتھ بیٹھا اور اسے دیکھنے لگا کیونکہ اب وہ منتظر تھا کہ مہتاب بولے
وہ گہرے سانس لیتا خود کو نارمل کرنے لگا
"سوری یار۔۔۔۔ میں ۔۔ اسکے معاملے میں ۔۔۔خود پر قابو نہیں کر پاتا۔۔۔آج بھی"وہ خود کو کمپوز کرتا بولا
"ہاں وہ تو دکھ رہا کیسے تو پاگل ہوا ایک سیکنڈ میں"سمیر نے اس پر میٹھا سا طنز کیا
مہتاب نے نے اسے جواب نا دیا
"کیسی دکھتی ہے!" سمیر نے بڑے تجسس سے پوچھا
"پتہ نہیں ۔۔ اسے بچپن میں بس دیکھا تھا ۔۔اب پتہ نہیں کیسی ہو گی۔۔۔ تب بہت پیاری تھی بلکل کالی آنکھوں والی جاپانی گڑیا۔۔۔۔اب تو جوان ہو گئ ہو گی۔۔۔پتہ نہیں کیس دکھتی ہو گی"وہ اسکی تصور آنکھوں میں لائے ایک جزب سے بول رہا تھا
اسکے نام پر اسکی آنکھیں مسکرائیں تھیں جو ان 5 سالوں میں پہلی دفعہ سمیر نے دیکھا تھا ۔
"تو کیا۔۔ اس سے ملنے کا دل نہیں کرتا اسے اب دیکھنے کی چاہ نہیں!" سمیر نے پھر پوچھا
"کس کمبخت کو محبت میں یہ خواب دیکھنے سے انکاری ہوتی ہے"وہ استہزاییہ ہنسا
"تو۔۔ کبھی تو نے اسے سے بات نہیں کی بلکہ تو نے تو کبھی اسکا زکر ہی نا کیا" سمیر تو بس الجھتا جا رہاا تھا
"ہماری فیملی کے بہت مسئلے ہیں اور انہیں مسئلوں میں اہم بات یہ ہے کہ بچے آپس میں نا ملیں"اب وہ سپاٹ لہجے سے بولا
اتنی لڑائ کشیدگی والی بات تو سمیر کو معلوم ہی تھی
"یار۔۔ تو اس سے محبت کرتاا ہے اس کیلے کوئی سٹینڈ نہیں لے گا؟؟؟"سمیر نےحیرت پریشانی سے پوچھا
"اپنے پیرنٹس کے خلاف نہیں جا سکتا میں" مہتاب نے سر ہاتھوں میں گرا لیا
"تو کیا تو کبھی پاکستان نہیں جائے گا؟ رمضان آ گیا ہے عید نہیں مناؤ گے؟"سمیر نے حیرت سے پوچھا سامنے بیٹھا ہوا لڑکا محبت پانے سے پہلے ہی گھبرا رہا تھا اور ایسے ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کونسی محبت ملتی ہےیا ملی ہے آج تک؟
"پتہ نہیں اب تو اسکی۔۔۔ ہر عید سہانی گزرتی ہو گی" وہ ہارے ہوے لہجے سے بولا اور اٹھ کر کچن سے باہر کی طرف قدم بڑھائے
"میرے بنا اب اسے عادت ہو گی "چلتے ہوے سوچا۔
"اب مہندی بھی کوئی اور لگواتا ہو گا
اب کپڑے بھی کوئی اور دلاتا ہو گا۔۔
شاید ہر عید گزرتے سالوں میں
اسکی سہانی ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔
بنا چاند کے۔۔۔۔۔
اب وہ ادھورے نہیں ہوں گے۔۔۔
وہ چلتے ہوے دل میں کہہ رہا تھا
"اسکا رشتہ آیا یے کسی اونچے سکندر خاندان کا"سمیر پیچھے سے بولا
اسکے قدم رکے
چار سو چالیس وولٹ کے ساتھ وہ پلٹا
دل جیسے مٹھی میں کسی نے لے کر چیتھڑے چیتھڑے کر دینے کی کوشش کی ہو
"تو بکواس کر رہا ہےکیسے پتہ لگا تجھے" وہ وہیں پر غصے سے دھاڑا
"تمہاری امی کا وائس میسج آیا تھا کہ تم واپس آؤ تا کہ وہ تمہاری بھی کسی اونچے خاندان میں شادی کر کے انکو کرارا سا جواب دینا چاپتی ہیں اور میں یقیناً کبھی نا سنتا تمہارا میسج اگر۔۔میسج کے نیچے نام کے ساتھ تمہاری امی نے سو سو القابات سے نوازا نا ہوتا" سمیر مے ساری بات بتایی کہ اسے اس لڑکی کا ناام کیسے پتہ لگا
مہتاب کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اس نے تو سوچا تھا کہ وہ خود پر ضبط کر لے گا نہیں اسے کچھ ہو گا
مگر اب جب اسکی رشتے کی بات کا علم۔ ہوا تو جیسے جسم بے جان سا ہو گیا ہو اسے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوی تھی
غصے سے جبڑا تن گیا تھا
اب ایسا بھی نہیں تھا کہ اسکی محبت کو کسی اور کے نام کر دیا جائے اور وہ سکون سے کھڑا دیکھتا رہے۔
"مہتاب۔۔۔ تجھے وہ کیا کہتی تھی !" سمیر اسکے پاس آتا بولا
مہتاب نے ایک نظراسے دیکھا
"چاند" وہ گہرے سانس سے بولا
"اور تم چاہتے ہو کہ وہ اپنی چاندنی ہمیشہ کیلیے کسی اور کو دے دے!"سمیر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے پوچھا
اسکا سر فوراً نا میں ہلا
"حاصل کرنے کیلیے ایک کوشش تو بنتی ہے نا۔۔ کیا پتہ وہ تمہاری اسی ایک کوشش کی منتظر ہو! نا بھی ہوی تو یار اسے اپنا منتظر بنا لو تم جتنا مان اسے دے سکتے ہو جو مجبت عزت دے سکتے ہو مجھے نہیں لگتا وہ کویی اور اسے دے گا اور ساری زندگی وہ تم سے گلہ بھی نا کر سکے گی" وہ اسے سمجھا رہا تھا جو دل ہارے بیٹھا تھا
"میرے برداشت سے باہر ہے کہ میں اسے کسی اور کا ہوتے دیکھوں" مہتاب نے دانت پیس کر کہا
"تو تیار ہو جاؤ پاکستان کی ٹکٹ میں کٹوانے لگا"سمیر نے مسکرا کر اسے جوش دلایا
مہتاب بھی عزم سے سر ہلا گیا
No comments:
Post a Comment