پھولوں کی ٹوکری
از قلم : ایمن اسحاق
رمضان کا مہینہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ہر انسان مقدور بھر عبادتوں میں مصروف ہے۔ایسے میں فرشتے رحمتوں کے ٹوکرے لے کر جوق در جوق زمین پر اتر رہے ہیں ۔۔۔"فرشتے انسانوں کی عبادتوں کو ایک سنہری پنکھ میں لپیٹ کر اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں"۔۔
ہم جو عبادتیں جو عرضیاں اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں وہ قبول ہوتی بھی ہیں یا نہیں ، یہ وہ بھی نہیں جانتے۔
ہم روزے میں عبادت تو کرتے ہیں لیکن اس کے اصل مقصد کو نہیں سمجھتے۔۔"اس کا اصل مقصد تو ہمیں ان برے اعمال سے بچانا ہے جو ہماری منزل میں کانٹے بچھا کر ہماری منزل کو کھا رہے ہیں"۔
بچوں سے اکثر ایک سوال پوچھا جاتا ہے۔روزہ رکھا ہے ؟ کہاں رکھا ہے؟
میں اکثر سوچتی تھی میرا روزہ کہاں رکھا ہے؟
اور پھر ایک دن مجھے اس کا جواب مل گیا۔"وہ روزہ جو میں ایک کام سمجھ کر رکھ رہی تھی ۔اس کی حفاظت میرا فرشتہ کر رہا تھا۔"
ہم جو کچھ کرتے ہیں فرشتے اس کو اعمال نامے میں درج کرتے ہیں تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارا روزہ نہ دیکھا جا رہا ہو۔اس کے درجے نہ ہوں۔"جو انسان جتنا خود پر قابو پاتا اور صبر کرتا ہے اس کا روزہ اتنا ہی اعلی درجے کا ہوتا ہے۔۔"
اب سوال یہ ہے کہ فرشتہ ہمارے روزے کی کیسے حفاظت کرتا ہے؟
"ہم جب روزہ رکھتے ہیں تو وہ روزہ ایک خوشنما پھولوں کی ٹوکری کی طرح ہوتا ہے۔۔اس ٹوکری میں رنگ برنگے مہکتے ہوئے پھول ہوتے ہیں کہ اگر ان پھولوں کی خوشبو ہم محسوس کر سکتے تو ہمیں پوری کائنات مہکتی ہوئی نظر آتی۔۔"
"انسان کے روزہ رکھتے ہی وہ ٹوکری فرشتے کے ہاتھ میں آ جاتی ہے"۔۔اور پھر جب ہم نماز ادا کرتے یا قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو ان پھولوں میں سے ایسی مہک آتی ہے کہ فرشتہ بھی مسکرا دیتا ہے۔۔اور اس کی مسکراہٹ سے پوری کائنات مہک اٹھتی ہے۔۔
"پھر وقت کے تھال میں سکے گرتے ہیں اور انسان کے اصل روزے کا آ غاز ہوتا ہے۔۔"
انسان جیسے جیسے غیبت کرتا ،بغض رکھتا اور غصہ کرتا اور برے اعمال کو اپناتا ہے تو پھولوں کی مہک کم ہو جاتی ہے۔حتی کہ ان میں ویرانی چھانے لگتی ہے ۔وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے کان وہ سنتے ہیں جن کے سننے سے منع کیا گیا ہے ۔اس کی آنکھیں وہ دیکھتی ہیں جن کے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔۔
"تو ایسے میں ان پھولوں میں عجیب سی بد حالی آ جاتی ہے۔۔۔جیسے وہ اپنے ہونے پر ماتم کر رہے ہوں۔"فرشتہ پھولوں کی ٹوکری کو دیکھ کر افسردہ ہوا چلا جاتا ہے۔کہ جس کی مہک نے اسے تازہ دم کر رکھا تھا اس کی مہک اسی کا مالک کھا رہا تھا۔۔
انسان صرف اس زعم میں ہوتا ہے کہ وہ روزے سے ہے لیکن یہ زعم اسے گناہوں سے بچا نہیں سکتا اور وہ اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے۔۔۔
"اس کی سوچ اسی کے لفظوں میں ڈھل کر اس کی تدبیر کو کھا جاتی ہے"۔۔اور پھولوں کی ٹوکری اپنی آغوش میں موجود پھولوں کو دیکھ کر صرف ماتم کرتی رہ جاتی ہے۔۔
"اور پھر آخر میں صرف ایک سنہری پنکھ رہ جاتا ہے۔وہ پنکھ دراصل ایک چابی کی طرح کا ہوتا ہے جسے انسان اپنی زبان ،آنکھوں اور کانوں کو پردہ لگا کر حاصل کرتا ہے۔۔"
"افطار کا وقت ہوتے ہی فرشتہ ہاتھ میں موجود ٹوکری میں صرف ایک سنہری پنکھ دیکھ کر انسان سے بھی زیادہ بے تابی سے روزے کے افطار کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اس سنہری پنکھ کو اس انسان کے لیے بچانا چاہتا ہے جو اپنی نادانی میں اس پنکھ کے سنہری پن سےنا آشنا ہے، بلکہ وہ تو خود سے بھی نا آشنا ہے۔۔"
"روزہ افطار ہوتے ہی فرشتہ اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔اسے اس سنہری پنکھ کو اس کے اصل مقام تک پہنچانا ہوتا ہے۔"
پھولوں کی اس ٹوکری میں سنہری پنکھ کے اوپر وہ دعائیں ہوتی ہیں جو اس انسان نے افطار کے وقت مانگی ہوتی ہیں۔۔فرشتہ نہیں جانتا کہ اس انسان کا سنہری پنکھ کب اس کو منزل کا پتا بتائے گا۔شاید تب جب وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لے گا۔۔۔
فرشتہ الوداعی نظر افطار کرتے آدمی پر ڈالتا ہے اور اڑتے ہوئے سوچتا ہے۔
"اے انسان! تیرے لفظوں کی تلوار تیری منزل کو کھا گئی۔۔"
***********
No comments:
Post a Comment