PAGES

Monday, 12 October 2020

Social media ke samaji zindagi per asrat article by Nadia Tahir Ghuman

 وشل میڈیا کےسماجی زندگی پر اثرات

نادیہ طاہر گھمن

 

 

سوشل میڈیا گر سوچیں تو اللہ تعالٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ھے اور اگر انسانی حرکات کو دیکھیں، اسکے منفی استمعال کرتےلوگوں کی اطراف میں نظر گھمائیں تو ہم جان جائیں گے کہ ہماری قومیں کس طرح خدا تعالیٰ کی نعمت کا بے حد درجے تک غلط استعمال کر رہی ہیں ۔کس طرح مثبت ہوتے استمعال کو منفی روش اختیار کئے لوگ تباہی مچاتے زندگیاں روئی کی طرح اڑا کر تباہ کرتے طوفانوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔کس طرح  تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں، آنے والی نسلیں کس  دور میں داخل ہونے جا رہی ہیں۔ ہم جان جائیں تو یقین جانیں کبھی کسی اللہ کی دی نعمت کا غلط استمال نہ کریں ،نہ بھٹکیں۔

سوشل میڈیا کے فوائدونقصانات میں باری باری تفصلًا یہاں بیان کروں گی

فوائد

فاصلے کم کرنے کا ایک اہم ذریعہ

انٹرنیٹ بہت سے فاصلوں کو خود میں سمو کر اپنوں کی دوریاں مٹاتا اپنے پیاروں کو  صحیح سلامت دیکھ کر دلوں کو راحت پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا ہے ۔ماں اپنے بیٹے کو خود کے قریب محسوس کرتی ہے جو کوسوں دور بیٹھا بات کر رہا ہوتا ہے تو وہیں اور بھی رشتوں کی محبتوں کو  محافظ بن جاتا ہے۔

علم سکھاتا اک معلم

انٹرنیٹ ایک استاد کا کام کرتا ہے ۔جب آپ کو کسی چیز کو سمجھنے میں مسلہ درپیش آتا ہے تو یہی انٹرنیٹ آپ کا استا د بن جاتا ہے اور ہر وہ پہلو جو آپ کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے بہترین طریقے سے اس کے ہر پہلو کو وہ حل کر کہ ایک معلم کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔

اچھائی اور برائی میں فرق بتاتا اک رہنما

وہیں اگر آپ کو کسی فیصلے پر پہنچنے میں دشواری پیش آ رہی ہو تو آپ اس کے فوائدو نقصانات خدا کی اس عطا کردہ نعمت کی مدد سے جان کر باآسانی فیصلے پر پہنچ سکتے ہیں۔

مشکل میں کام آنے والا اک دوست

 

جب ہمیں فوری مدد چاہیے ہو اور کوئی ہماری رہنمائی کے لیے ساتھ نہ ہو تو یہی معلم دوست بن کر رستہ دیکھاتا ہے رہنمائی کرتا ہے۔

ترقی کے مواقع بڑھاتا اک مددگار

آجکل ہر  ترقی کے مواقع کی خبر پہلے سوشل میڈیا پر آتی ہے پھر کسی اور صورت میں ہمیں معلوم ہوتی ہے روزگار کے ذریعے بڑھانے میں سوشل میڈیا بہت مددگا ثابت ہوا ہے۔

ضرورت مندوں تک پہنچنے کا  ذریعہ

اگر کوئی ضرورت مند کسی مشکل میں ہو یا اسے کسی مدد کی ضرورت ہو تو اس تک سوشل میڈیا پہنچنے میں مدد کرتا ہے۔

جہاں سوشل میڈیا کہ اتنے فوائد ہیں وہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات دیکھنے میں آ رہے ہیں

 جب نیا نیا سوشل میڈیا عام ہونے لگا تو اسلامی سکالز نے اسے شیطانیت کا نام دیا جو کہ آہستہ آہستہ اپنی شیطانیت حقیقتاً دیکھانے لگا اور اس کے نتائج بھی جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔

نقصانات

سوشل میڈیا ایک بے رحم لٹیرا

سوشل میڈیا ایک ایسا لٹیرا ثابت ہوا ہے جو خود کو ایک دوست دیکھاتے ہوئے ذہنیت سوچ اور روحانیت کو چھین لیتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری نوجوان نسل میں یہی سوشل میڈیا روحانیت کا لٹیرا بن کر سامنے آیا ہے جسے ماننے سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں۔

حکمرانوں کی کاہلی

 یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ کوئی چیز بری نہیں ہوتی بلکہ اسکا استمعال اسے برا بناتا ہے ۔کوئی قوم خود سے تباہی کی طرف گامزن نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے بہت سے عہدوں کے چیزوں کے استمعالات انہیں تباہی کی جانب دھکیلتی ہیں۔ دراصل یہ طاقتیں ہی ہیں جو سب جانتے بوجھتے بٹیر کی طرح آنکھیں موند لیتی ہیں سب جانتے بوجھتے اختیار میں سب ہوتے ہوئے بھی اپنے مفاد کے لیے چپ سادھ لیتی ہیں۔

 افسوس ،نہیں سوچتے کہ کیسے وہ خاموشی سے کئی جانوں کا قتل کر رہے ہوتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ وہ کیسے اللہ کی سپرد کی گئی امانتوں میں خیانت کر ہے ہوتے ہیں ان سب میں فقط ہمارے اوپر مسلط کیے جانے والے حکمران ہی نہیں ہیں بلکہ ہر وہ عہدہدار شامل ہے جس کے بس میں ان حالات کو روک پانا ہوتا ہے مگر چپ رہتے ہیں ،ایک دم چپ۔

قوموں اور نسلوں کی تباہی کی بڑی وجہ

اگر ملک کا نظام ایسا رائج کیا جائے جس میں ہر فتنہ شر گناہ کی جانب راغب کرتی چیزوں سے دوری اپنانے کی تربیت کی جائے اگر سوشل میڈیا سے ہر وہ چیز جو فتنے کا یا ہماری قوم کی تباہی کا باعث بنےتو کیونکر نہ اس عروج پاتی چیز کو روکاجائے؟

اس کی مثال آج کل بہت ہی عام ہمارے معاشرے کو زوال کی طرف لے جاتا ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں کو جکڑ لینے والا ایک کھیل پب جی ہے اور بے حیائی پھیلا کر اسے عام کرتا ٹک ٹاک جسے ہمارے لوگ بہت فخر سے ہاتھوں میں بڑے بڑے موبائل تھامے فخر سے مہنگے پیکجز پر ماں باپ کی کمائی کو عیاشیوں کے نام کرتے چل رہے ہوتے ہیں انجوئے مینٹ کہا جاتا ہے ،بے حیائی کو انجوائے منٹ کا نام دے کر بہت آگے لے جا یا جا رہا ہے۔

 اور افسوس صد افسوس، ہمارے حاکم خاموشی سے بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

شیطانیت کے بڑھنے کی وجہ

اگر آپ شر پسند ہیں تو آپ شر کو ہی پھیلانے کے لیے کسی بھی چیز کا استعمال کریں گے لیکن اگر آپ امن کے پجاری ہیں تو وہی چیز بہتر طریقے سے استمعال کی جائے گی ۔

یہاں فرق ہے تو فقط سوچ کا تماشائی کی بجائے رہنمائی کا

بے رحمی کی اہم وجہ

وہیں دیکھا جائے تو ایک آدمی جو جھلس کر مر رہا ہو یا کوئی حادثے کے باعث آخری سانسیں گن رہا ہو تو لوگ پریشانی سے اکٹھے تو ہو جاتے ہیں مگر بتاتے ہوئے بھی دل کٹنے لگتا ہے کہ انہیں کسی کے موت کے آتے لمحوں میں بھی سوشل میڈیا جھکڑ لیتا ہے وہی لوگ موبائل فونز نکال کر تصاویر کھنچنے لگتے ہیں تو کچھ ویڈیوز بنا کر اپ لوڈینگ میں لگ جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں اس ٹھنڈے پڑتے وجود کو اور اکھڑتی سانسوں والے کو۔

فاصلوں کو بڑھانے کی وجہ

جہاں سوشل میڈیا فاصلوں کو کم کرنے کی وجہ بنتا ہے وہیں ایک ہی گھر میں اپنے اپنے موبائل فونز میں غرق اولاد کو والدین کے پاس ہوتے ہوئے بھی دور کر دیتا ہے ۔

بوڑھے والدین کی آوازیں نا جانے کیوں کانوں سے ٹکرانا بند ہو جاتی ہیں اور سماعت کہیں خاموش تماشائی بنے سب دیکھ رہی یوتی ہے اور وہیں یہی سوشل میڈیا عزتوں کے لٹنے کی وجی بن جاتا ہے کمزور ذہنوں کو زنگ لگنے کا باعث بن جاتا ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں اپنے ذہنوں کی تربیت کرنی ہے ہمیں ہمارے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے شر پھیلاتی جان لیوا کھیلوں اور چیزوں کا بین ہونا ضروری ہے اپنے جوانوں کے کمزور ذہنوں کو اسلام کی طاقت سے مضبوط بنانا ضروری ہے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر کے امیروں کو سوشل میڈیا پر ان کی تصاویریں شیئر کرنے سے ان کا مذاق اڑانے سے روکنے کی ضرورت ہے-

امیر زادوں کی  امیری کے نشے کو سوشل میڈیا کے سہارے اتارنے سے بچانا ہو گا۔

ارے اے طاقت ور تو نے تو کمزور کا تماشہ ہی بنا ڈالا

تو طبیب تھا کہتا تھا کروں گا مریضوں کا علاج،

باپ کے ہاتھوں میں بیٹی کا تماشہ ہی بنا ڈالا،

تو استاد تھا کہتا تھا علم کا آفتاب بنوں گا،

ارے تو نے تو طلبہ کی زندگی کا تماشہ بنا ڈالا،

تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں سوشل میڈیا کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ہر فرد کو بہتری کی اشد ضرورت ہے دراصل حقیقتاً  اب ہمیں اسلام کے اصولوں کی ضرورت ہے.

******************************************





No comments:

Post a Comment