PAGES

Sunday, 26 April 2020

Kia mein insan hon by Sidrah Rajpoot

عنوان۔۔۔۔۔۔۔۔کیا میں انسان ہوں؟
ہم آج جو ان الفاظوں کو جوڑ کر ایک کالم کی شکل دے رہے ہیں ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا لکھ رہے بس ہم اپنے سوالوں کا جواب چاہتے۔۔ان لوگوں سے جو شاید اچھے سے خود کو جانتے اور خود کو انسان کہتے ہیں۔۔ہمارے ذہن میں بہت سے سوال ہیں جن کے جواب شاید کوئی ہمیں دے دے۔۔۔
ہم بتاتے چلیں کہ ہم سے مراد فقط ہماری( میری) ذات ہے۔۔۔۔میں میں کے عادی نہیں ہم۔۔۔ہمارا ماننا ہے۔۔۔
                         میں میں مغروری ہوتی٬ ہم میں نہیں۔۔۔
                      آپ میں عزت ہوتی٬ تم میں نہیں ۔۔۔۔
کل ہم تنہا تھے خلقت سو رہی تھی ہمارے دل میں ایک عجب وحشت تھی ۔۔۔مانو کہ کبھی جکڑا تھا ہمیں زندگی نے تو کبھی سرہانے موت آرام کی نیند سو رہی تھی۔۔ہمارے قاتل ہمارے اندر تھے چھپے اور بدنام خلقت ہو رہی تھی۔۔یہ تماشائے گلزار دیکھ کر۔۔خیر اور شر کا معیار  دیکھ کر  عجیب جنونیت میں لپٹا سلگ اٹھتا ہے دل اپنے بام و در کی حالت زار زار دیکھ کر۔۔۔۔
ہمیں کوئی بتائے یا تسلی کے چند حق بجانب الفاظ ہی بول کے ہم نادان کو کوئی سمجھا ئےکہ یہ کیسا جہاں ہے ؟جہاں راحت راحت بولتے بن جائے وہ کلفت۔سمندر سمندر دریا۔۔ارے یہ تو وہ جہاں ہے جہاں چراغ تلے  اندھیرا۔۔۔سکون سکون تشنگی۔۔زندگی زندگی موت۔۔چپ کی مہر بنے بدنامی۔۔پردہ بن جائے فیشن۔۔دوپٹہ لگے پھندہ۔۔آزاد خیالی بن جائے فحاشی۔۔ اور انسان بنے حیوان۔۔۔جی ہاں ایک بار پھر کہوں گی انسان بن جائے حیوان بلکہ اس سے بھی بد تر۔۔پتہ یے ہم بھی انسان نہیں ہے نام کی انسان ہوں بس بول سکتی ہوں بلکہ نہیں بول بھی نہیں سکتے بس لکھ سکتے ۔۔کیوں نہیں بول سکتے؟کیونکہ ہم سب تماشائی ہیں ۔۔۔ہم (سب)بولنے پہ آئیں گے تو واہ واہ کی آواز سن کے ایسا بولیں گے کہ بڑے سے بڑا معلم٬لکھاڑی مولوی عش عش کر اٹھے گا۔۔۔مگر ان الفاظ کا کیا فائدہ جناب جب من ہی کالا ہے۔۔جب ہم بس بول سکتے کر کچھ نہیں سکتے۔۔ہمارے والدین محترم( خدا پاک سب کے والدین کو لمبی صحت والی زندگی عطا فرمائے اور انکے طفیل ہمارے والدین کو بھی لمبی صحت والی زندگی عطا فرمائے آمین) فرماتے ہیں کہ بیٹا باتوں سے کچھ نہیں ہوتا کرنا پڑتا ہے بتانا پڑتا ہے کہ ہاں ہم بھی ہیں جیسے کلاس میں حاضری کے وقت استاد محترم کو بتانا پڑتا ہے اپنی موجود گی کا ورنہ ایک دن نام ہی خارج ہو جاتا ہے۔۔اسی طرح انسان ہو تو انسانیت کا ثبوت دیتے رہنا چاہئے ورنہ انسان کے لقب سے محروم ہو جاؤ گے۔۔۔مگر سوچنے کی بات ہے کہ ہم انسان ہیں کیا؟ہم شوخے ہیں ۔۔آپ جانتے نہ ہم انسانیت دکھاتے ہیں ہاتھ میں موبائل لے کے۔۔سمجھ تو گئے ہو گے سب انسانیت کا معیار ۔۔۔ہم انسان نہیں رہے بس نام نہاد انسان ہیں۔۔ہمارے اندر غلاظت بھر گئی ہے ۔۔ہمیں کوئی تو بتائے کے ہم انسان کب بنیں گے جب ملک الموت ہمارے سر پہ ہو گا؟ہم نے ایک سیریل کا سین دیکھا کہ دل میں میل بھر گئی ہے ہاتھ پاؤں دھو کے نہا کے بھی وہ میل نہیں نکل رہی وہ میل کیسے نکلے گی۔۔روح کاںپ گئی کہ واقعی وہ میل کیسے اور کب نکلے گی۔۔؟؟؟پھر ایک راستہ ملا ۔۔توبہ۔۔۔ہم انسان تب ہی بن سکتے جب خود کو پاک کر لیں توبہ کر کے۔۔۔اس وقت انسان انسان نہیں ہے ۔۔ہم آپ سے پوچھتے کے یہ کونسا جھاں ہے۔۔۔یھاں تو سب پتھر ہیں۔۔۔ہم بہی پتھر انتہائی معزرت کے ساتھ آپ بھی پتھر بلکہ یہ جہاں بھی پتھر۔۔۔توبہ کا در کھلا ہے اور مت بھولیں کہ توبہ بھی وہی کرتا جسے وہ واحد و پاک ذات توفیق دے۔۔بے شک۔۔۔آخر میں ہم ایک شعر کہیں گے ان سب کے لیے جو لفظوں سے حکومت چاہتے۔۔۔.                              میٹھے بول کی بولی بولتے ہو گیا بول بالا۔۔۔من کی بھاشا سمجھ نہ آنی من ہی ہےجو کالا۔۔۔




No comments:

Post a Comment