PAGES

Sunday, 26 April 2020

Kamyabi ka safar by Iqra Shokat

کامیابی کا سفر 
کامیابی ایک ایسی چیز ہے  جس کی خواہش ہر انسان کے دل میں ٹھاٹھیں مارتی ر ہتی ہے جیسے کہ سمندر میں پانی ٹھاٹھیں مارتا ہے ویسے ہی انسان کے دل میں کامیابی کی خواہش ٹھاٹھیں مارتی ہے۔سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کامیابی آخر چیز کیا ہے ؟کامیابی سے مراد ایسا مقام ہے جہاں آپ اپنی  منزل پالیں ،اپنی زندگی کا مقصد پورا کرنے میں کامیاب ہو جاٸیں آپ اپنی زندگی میں مطمٸن ہوں۔آج کی اس مادیت پرست دور میں اکثر لوگ کامیابی سے مراد مال وزر کو لیتے ہیں مثلاً آپ کے پاس بہت پیسہ ہے دولت کی ریل پیل ہے آپ کامیاب ہیں،گاڑی نوکر چاکر ہیں تو آپ کامیاب ہیں ۔حالانکہ کامیابی ایک مختلف چیز ہے۔ کامیابی کا تعلق کسی عہدہ،سکیل یا شہرت سے نہیں ہے مثلاً آپ ایک عام سی زندگی بسر کر رہے ہیں آپ 14سکیل میں ملازمت کر رہے ہیں ضرویات زندگی پوری ہو رہی ہیں ،اپنی زندگی میں خوش و مطمٸن ہیں آپ کامیاب ہیں۔
اس کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ کامیابی کیسے ممکن ہے کیا چیزیں ضروری ہیں؟کامیابی حاصل کرنے کے لۓ سب سے پہلے ایک سوچ(vision)کا ہونا ضروری ہے ۔ہر ایک عظیم کام کے پیچھے ایک عظیم سوچ ہوتی ہے ۔کسی بھی منزل تک پہچنے کے لۓ ایک مقصد کا ہونا ضروری ہے جس کو آپ ذہن میں رکھ کر آپ مسلسل محنت کرتے رہیں.انسان کا پر عزم ہونا ضروری ہے ۔انسان کی سوچ مثبت ہونی چاہیے۔انسان کو اچھا گمان رکھنا چاہیے ۔انسان کو اس کے گمان کے مطابق ملتا ہے۔قرآن میں یہ چیز ہے” انسان کے لۓ وہی ہے  جیسا وہ گمان  رکھتاہے “۔مثال کے طور پر آپ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں اگر آپ یہ سوچ کر محنت کریں گے کہ آپ محنت کریں گے اور أنشاءاللہ ضرور ڈاکٹر بننے گے تو یقین جانیے اللہ پاک آپکو کامیابی سے ضرود ہمکنار کرے گا۔انسان کی کامیابی کے لۓ صرف جوش و جذبہ کا ہونا ہی ضروری نہیں بلکہ اس کے ساتھ محنت،مستقل مزاجی،صبر وتحمل اور بردباری کا ہونا ضروری ہے۔کچھ لوگ شروع میں اپنی منزل کے حصول کے لۓ  بہت پر جوش ہو تے ہیں لیکن انھیں اپنی منزل تک پہچنے کے لۓ بہت سی مشکلات مثلاً مالی مساٸل ،تنقید اور ناکامیوں کا سامنا ہو تا ہے تو وہ زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور اپنی ناکامی کو حتمی سمجھ کر اپنی تگ و دو چھوڑ دیتے ہیں ۔وہ کسی آلہ دین کے چراغ کے منتظر ہو جاتے ،کسی معجزے کے انتظار میں لگ جاتے ہیں جو انکی ان مشکلات و مصاٸب سے نجات دلاۓ۔انسان کو کسی بھی صورتحال میں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاءیے ہمیشہ اللہ پاک سے بہتری کی امید رکھنی چاءیے۔انسان اس وقت تک نہیں ہار سکتا جب تک وہ خود ہار تسلیم نہ کرے۔بعض لوگوں کو میں نے یہ کہتے ہوے سننا ہے کہ اگر مجھے فلاں چیز نہ ملی میں جی نہیں پاٶں گا /گی۔ان کی اس بات سے مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ وہ محض ایک چیز کے نہ ملنے سے زندگی کا اختتام سمجھتے ہیں۔اور ایسے لوگ اپنا بہت نقصان کرتے ہیں اکثر ایسے لوگ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ۔ان کو زندگی اور اس میں موجود رنگینیاں سب بے معنی لگتی ہیں ۔اس لۓ اپنے شوق ،مقصد یا کسی بھی خواہش کو اپنے اوپر ہاوی مت کریں۔صبر کا دامن کبھی مت چھوڑیں اللہ سے ہمیشہ اچھے کی امید رکھیں۔قرآن میں ہے ”اگر تم شکر گزاری کرو کرو گے میں تمہیں اور دوں گا“۔انسان کو جو چیز اچھی لگتی ہے ضروری نہیں وہ درحقیقت اس کے لۓ اچھی ہو اور بعض اوقات جو چیز انسان کو بری لگتی ہے وہ ہی اس کے لۓ بہتر ہوتی ہے۔انسان کی اتنی فہم و فراست نہیں ہے کہ وہ قدرت کے کاموں کو سمجھ سکے۔قرآن میں ہے”عین ممکن ہے انسان وہ چیز ناپسند کرے جو اس کے لۓ بہتر ہو اور وہ چیز پسند کرے جو اس کے لۓ نقصان دہ ہو“
انسان کو اپنی منزل تک پہچنے کے لۓ بہت سے مشکلات و کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بہت سے کانٹے چننے ہو تے ہیں ۔بہت سی ناکامیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔اگر یہ کہا جاۓ کہ ناکامی کے کے بعدکامیابی ایسی ہے جیسے رات کےبعد صبح ۔ہر تاریکی کے بعد روشنی ہوتی ہے۔کسی دانا کا قول ہے ”ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑ ھی ہے“۔انسان کو کسی بھی ناکامی کو حتمی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اپنی ناکامی کی وجوہات کو زیرِغور لانا چاہیے کہ آخر میں کیوں ناکام ہوا کس چیز کی کمی تھی۔اور اپنی اصلاح خود کرنی چاہیے اور اپنی ناکامی پر دل برداشتہ ہونے کے بجاۓ مزید محنت سے کام کرنا چاہیۓ ۔تاریخ میں جن لوگوں نے  بڑے بڑےکارنامے انجام دیے انھوں نے اپنی ناکامی کو گلے لگایا اور اپنی ناکامی کو کامیابی کی بنیاد بنایا۔مشہور موجد ایڈیسن نے بلب بنانےکی 9999 کوشش کیں اور ناکام رہا پھر بھی ہمت نہ ہاری اور بلأخر بلب کو روشن کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ایڈیسن نے 1249 ایجادات کیں اور دنیا میں ایک نام کمایا۔ایڈیسن سے کسی نے پوچھا ”آپ نے 9999دفعہ ناکام بلب بنانے کی کوشش کیں آپ مایوس نہیں ہوۓ “؟ایڈیسن نے جواب دیا”بالکل نہیں بلکہ میں نے  9999دفعہ ایسے طریقے ایجاد کیے جن سے بلب نہیں روشن ہو سکتا تھا“۔اس سے سبق ملتا ہے ایڈیسن ہمت ہار جاتا اتنی ایجادات نہ کر پاتا۔میرے نزدیک ناکامی کے بغیر کامیابی ممکن ہی نہیں اور ناکامی کامیابی کے لۓ بہت ضروری ہے۔مشکلات اور کانٹوں بھرے جنگل سے گزر کر جب آپ منزل کو پاتے ہیں تو جو خوشی آپ پاتے ہیں اس کا لطف ہی الگ ہوتا ہے.انسان اس مقام و مرتبے کی زیادہ قدر کرتاہے جو اس نے کٹھن مراحل طہ کر کے حاصل کی ہوتا ہے۔ایسا انسان عاجز ہوتا ہےاسے اپنا ماضی یاد ہوتا ہے اسے یاد ہوتا ہے کہ اس نے اس منزل تک پہنچے ک لیۓ کتنے پتھر کھاۓ ہیں ۔ہمارے سامنے بہت سی مثالیں ہیں لیکن بطور مسلمان ہم اپنے پیارے نبی حضرت محمد ّ کی مثال لے سکتے ہیں جو ہمارے لیۓ رول ماڈل ہیں 23سال تقریباًسخت مشکلات و آزماٸش میں دین کی تبلیغ کی سخت تنقید،الزام تراشی،برا سلو ک یہاں تک پتھر بھی کھاۓ اور آپّ کے قتل تک کی کوشش کی گٸ لیکن آپّ ثابت قدم رہے اور محنت نہ چھوڑی اللہ کا پیغام دنیا تک پہنچاتے رہے۔اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جاوید چودری جن کا شمار عظیم کالم نگاروں میں ہوتا یے ان کو لکھنے کا شوق تھا انتہاٸ پست گھرانے سے تعلق رکھتے تھے وہ روز اپنا آرٹیکل لے کے اخبار کے دفتر جاتے تھے انکے آرٹیکل شاٸع نہیں کیے جاتے پھر بھی آپ نے ہمت نہ ہاری اور کوشش جاری رکھی نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔نہلسن منڈیلا 28 سال تقریباً قید رہاپھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری ۔رہا ہوتے ہی وہی سے بات شروع کی جہاں سے چھوڑی تھی۔ان کا قول ”تو میں کیا کہہ رہا تھا“ بہت مشہور ہے اور اس عظیم لیڈر نے محنت جاری رکھی اور اپنے مشن میں کامیاب ہوا اور آج بھی آپکا نام تاریخ میں سنہری حروف میں رقم ہے،رابرٹ بروز جس نے کہیں بار جنگ ہارنے  کےبعدبلاخر جنگ جیتی،ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے تقریباً22سال کی کاوش کے بعد حکومت حاصل کی۔اسی طرح ایک ساٸیکاٸٹریسٹ ڈاکٹرانم نجم ہیں وہ ایک دن سفر میں تھیں ڈاکووءں نے گولی مار دی انکو وہ مفلوج ہو گٸ وہ Mbbs تھرڈ year ki طلبہ تھی انھوں نے اپنی ماٸیگریشن اے جے کے میڈکل کالج میں کروا دی اور اپنی تعلیم مکمل کی اوروہ آج  بہت اچھی  ماہر نفسیات ہیں ۔وہ ہاتھ تک نہیں ہلا سکتی لیکن بہادر خاتون ہیں ۔انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے ”اگر آپ کے پاس ایک ہزار وجوہات ہوں اپنا مشن چھوڑنے کی اور ایک وجہ ہو جاری رکھنے کی آپ اس ایک وجہ کا انتخاب کریں اور وہ آپکے دل کی آواز ہے“ ۔مشہوراینکر منیبہ مزارے کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے وہ بہت اچھا بولتی ہیں وہ بھی معذور ہیں وہ کہتی ہیں”لوگ مجھے معذور سمجھتے ہیں اور اس میری معذوری کو میری کمزوری سمجھتے ہیں لیکن میں انھیں disable سمجھتی ہوں جو ایسے سوچتے ہیں میں اپنی معذوری کو  اپنی طاقت سمجھتی ہوں“.اپنی ناکامیوں ،محرومیوں کو اپنی طاقت بناٸیں نہ کہ کمزوری۔ایک اور چیز بھی مشاہدہ میں آٸ ہے کہ جب آپ  کوٸ کام کرنے جا رے ہو تے ہیں لوگ آپ کی حوصلہ افزاٸ نہیں کرتے ہیں بلکہ آپ کو  ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں اور کہیں گےآپکے ساتھ  ایسا ہو جاۓ گاویسا ہو جاۓ گا۔آپ اپنے اندر کے انسان کو جگاٸیں اور چپکے سے اپنے کام میں لگے رہیں یہ نہ سوچیں یہ کیسے ہو گا وہ کیسے ہو گا ۔میرے پاس وساٸل نہیں ہیں میر ے ماں باپ غریب ہیں ،میں ناکام ہو جاٶں گا وغیرہ وغیرہ اپنے تمام اندیشوں کو دفنا دیں اور مستقل مزاجی سے محنت کیجیے ۔قرآن میں ہے ”انسان کے لۓ وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی“.
آپ بس اللہ پہ توکل رکھیے اور محنت کیجیے راستے وہ بناۓ گا۔ہر ایک کی تنقید کو صبر سے سنیے کامیانی آپ کے قدم چومے گی۔

      اقراء شوکت




No comments:

Post a Comment