PAGES

Wednesday, 15 August 2018

Khouf ke us paar Article by Hoorain Samreen

Khouf ke us paar Article by Hoorain Samreen



آرٹیکل :خوف کے اس پار
از قلم:"حورین ثمرین"
انسانی شخصیت ایک بڑی ہی عجیب چیز ہےاور انسا ن کا مزاج عجیب ترین۔۔۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ انسان روزانہ کے معمول میں سترہ مختلف کیفیتوں سے گزرتا ہے۔۔کبھی وہ خوش ھوتا ہے تو کبھی اداس،کبھی وہ اس حد تک پر امید ہو تا ھے کہ لگتاہے بس آسمان کو چھو ہی لے گا اور کبھی مایوسی اس حد تک بڑھ جا تی ھے کہ دو قدم چلنا بھی غیر مفید لگتا ہے۔۔۔
ان مختلف مزاج سے مل کر ہی انسان کی زندگی پرکشش اور دلکش ہوتی ہے انہی مختلف کیفیتوں میں سے ایک کیفیت "خوف"ھے۔۔خوف بذات خود کوئ منفی کیفیت نہں بلکہ اس کو منفی کیفیات مل کر منفی بنا دیتی ھیں جبکہ اس خوف سے لڑ کر اور جیت جانے کے نتاءج بڑا ہی مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔
اگر خوف نہ ہوتا تو شاید ایک انسان شعور حاصل ہی نہ کر پاتا۔باعمل زندگی نہ گزارتااور خوف سے آزاد رہ کر کسی کی جستجو ہی نہ کرتا۔۔انسان کی پیداءش سے اس کی موت تک آگے بڑھنے اور بڑھتےرہنے کا سفر صرف اور صرف خوف کی وجہ سے ہی ممکن ہےکیا ھو اگر ایک باپ معاشی جدوجھد میں حصہ ہی نہ لےکیو نکہ اسے بچوں کے ناکام مستقبل کا خوف ھی نہ ھو،ماں کو خوف ہی نہ ہو کہ اولاد کی تر بیت میں عدم دلچسپی کس حد تک نہ صرف اس کے لئے بلکہ پورے معاشرے کے لئے زہر قاتل ثابت ھو گی۔ایک فرد کی کامیابی اور ناکامی میں خوف کا بڑا گھرا کردار ہوتا ھے۔۔ھم دیکھ ھی ھیں کہ اپنے آنے والےوقت کی ناکامی کی سوچ سے آزاد طا لبعلم وقت،پیسہ کس طر ح برباد کرتے ہیں۔۔
بحیثیت مسلمان آخرت سے بے خوف ہو کر گزاری گئ زندگی کس انجام سے دوچار کرے گی،بطور پاکستانی اور انسان انجام سے بے خوف ہوکر کئے گئے اعمال کیا دن دکھا رہے ہیں اور کیا کچھ د یکھنا باقی ہے۔۔حکو متی محکموں اور اداروں کی نتائج سے آزاد حکمت عملی اور فیصلوں نے کہاں پہنچا دیا ہے۔۔۔۔غرضیکہ خوف سے بے خوف ہو کر لڑنااور نتائج کو اپنے حق میں کرنا ہی اس کا مفید استعمال ہے۔۔بےخوف زندگی زندگی تو ہو  سکتی ہے مگر کا میاب زندگی نہیں۔۔
آج تک جو لوگ خوف سے لڑسکے ہیں وہی اس دنیا میں اپنا نام پیدا کر سکے ہیں۔۔زندگی کی بقاء کا خوف چڑیا کو اپنا گھونسلہ بنانے پر مجبور کرتا ہے تو سمندر میں ڈوب جانے کا خوف بطخ کو تیرنے پر۔۔پہاڑ سے گر جانے کا خوف انسان کو اس پر چڑھنے سے روکتا ھے تو جذبے سے سرشار ہوکر اسے سر کر جانےوالا کوہ پیما ایک ریکارڈ بنا لیتا ھے۔۔۔اپنے تشخص اور نظر یات کی موت کا خوف "پاکستان" قائم کر دیتا ھے اپنے ہم مذہب اور ہم وطنوں کی نسل کشی کا خوف" قائد اعظم"بنا دیتا ھےتو سائنس اور ٹیکنالوجی سے محرومی کا خوف ایٹمی قوت اور "ڈاکٹر قدیر خان"--پس جو خوفزدہ  ہوا وہ لڑ گیا جو لڑ گیا وہ پاگیا جو پا گیا بس وہی جی گیا۔۔۔


*******************

No comments:

Post a Comment