PAGES

Tuesday, 24 April 2018

Dastan e Neelum Article by Ahmi Khan Pdf


Dastan e Neelum Article by Ahmi Khan

Dastan e Neelum Article by Ahmi Khan Pdf 

Is a social romantic novel by the writer 

She has written many stories and has large number of 

fans waiting for her novels 

she has written in many digest like 

Prime Urdu Novels 


and many more 

She is very famous for her unique writing style 

Mostly writer shows us the reality and stories 

which are around us 

They have such   ability to guide us through their 

words and stories 

"داستانِ نیلم"
"ایمی خان"
شہر طلسمیات شہر مظفرآباد میں بہتے دریاۓ نیلم کی کہانی نیلم کی ہی زبانی......
جب نیلم کنارے جاؤ تو اس کے پانی کی سرسراہٹ میں بہہ جانے والوں کی سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی ہیں.نیلم کو خونی دریا کہا جاتا ہے یہ اپنی موجوں میں ناجانے کتنے لوگوں کے پیاروں کو بہا لے گیا بظاہر یہ چپ چاپ اپنی موج میں بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن غور کرو تو یہ کہانیاں سناتا ہوا محسوس ہوتا ہے......
یہ اپنے سینے میں بہت سوں کے دکھ،بہت سوں کے درد اور بہت سوں کے راز دفن کیے ہوۓہے.اس کی طرف دیکھو تو ایسے لگتا ایک طلسم سا ہے جو ہمیں اسکی طرف کھینچتا ہےہمیں اپنے پاس بولاتا ہے اور کہتا ہے جب تھک جاؤ تو میرے آنگن میں آکر بیٹھو اور اپنے سارے دکھ درد کے قصے مجھے سنا جاؤ،میں سب اپنے سینے میں دفن کر لوں گا میرے آنگن میں چلتی ٹھنڈی ہوائیں تمہارے دل و دماغ میں چلتی جنگ کو اپنے ساتھ اڑا لے جائیں گی اور میری اچھلتی لہریں جب تمہارے پاؤں سے ٹکرائیں گی تو ٹھنڈک کا احساس تمہارے دل و دماغ میں اتر جاۓ گا. .....
تمہارے اندر چلتی جنگ رک جاۓ گی اور تم گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ جاؤ گے اور صرف سکون ہی سکون محسوس کرو گےجب میرے پاس سے اٹھ کر جاؤ گے تو میری لہریں تمہارے قدموں سے لپٹ کر تمہیں روکیں گی تم بوجھل قدموں سے ریت اور پتھروں پر چلتے پلٹ کر مجھے دیکھو گے اور چل دو گے لیکن اس عہد کے ساتھ کہ تم پھر آؤ گےمیرے آنگن میں بیٹھنے،میری اور اپنی تنہائی بانٹنے..........
رات کو سارا شہر جب سناٹوں میں گر جاۓ اور تمہیں نیند نہ آۓتو چپکے سے ٹیرس پر جانا اور سننا،سناٹے میں میری موجیں تمہیں لوری سناتی محسوس ہوں گی تم دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے آنکھیں بند کر کے میری لہروں کی سرگوشیوں میں گاتی لوری کو سننا اور پھر جب تھک جاؤ تو جا کر سو جانا.........
میرے شہر میں جہاں جہاں جاؤ گے میں تمہارے ساتھ ساتھ جاؤں گا اور جہاں جہاں تک چلو گے میں تمہارے ساتھ چلوں گا میری رگ رگ میں وفا اور لہر لہر میں خلوص شامل ہے.مگر تم آدم زاد لوگ بہت بیوفا ہوتے ہو ،دوردراز سے جب آتے ہو میرے ساتھ خوب تصویریں بنواتے ہومیری آغوش میں موجود پتھروں پر کھڑے ہو کر ایسے بازو پھیلاتے ہو جیسے اپنے دامن میں مھجے سمیٹ کر لے جاؤ گے لیکن پھر جب جاتے ہو تو میری طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے........
اس شہر کے باسی یا تو بہت مصروف ہوتے ہیں یا بہت کم ظرف ان کے پاس میرے پاس آکر بیٹھنے کے لیے وقت نہیں ہوتا یا یہ لوگ مجھے دیکھ دیکھ کر عادی ہو گۓ ہوتے ہیں یا پھر اکتا گۓ .........
ہاں یونیورسٹی کی وجہ سے  دوردراز سے امیدوں اور امنگوں سے بھرپور چہرے لیے جب نوجوان طبقہ یہاں آتا ہے اور ہوسٹلز میں مقیم ہوتا ہے تو اسکی توجہ کا مرکز میں ہوتا ہوں........
وہ میرے پاس آتے ہیں کبھی اکیلے،کبھی کسی کے ساتھ،جب اکیلے ہوں تو مجھے اپنے غم سناتے ہیں اپنے راز بتلاتے ہیں اور جب ساتھ ہوں تو میرے آنگن میں بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ موج مستیاں کرتے ہیں ایک دوسرے کو قصے کہانیاں سناتے ہیں خوب شرارتیں کرتے ہیں میں چپکے سے انکی ساری باتیں سنتا ہوں انہیں خوش دیکھ کر خوش ہوتا ہوں.........
اور کچھ یہاں پیار کے باسی بھی آتے ہیں میری آغوش میں آکر خوب عہد و پیماں کرتے ہیں ان میں سے کچھ سچ میں پیار کرتے ہیں اور کچھ محض وقت گزاری........
جب میں ایسے کسی دھوکے باز کو دیکھتا جو لفظوں کو مجروح کر رہا ہوتا کسی معصوم دل کے ساتھ کھیل رہا ہوتا تو میرا دل کھول جاتا میں چیخ چیخ کر اس معصوم کو بتاتا سنبھل جا سنبھل جا.........
لیکن لفظوں کے جال میں پھنسے اس پیکر کو اس وقت صرف اپنے دھوکے باز محبوب کی باتیں سنائی دے رہی ہوتی،میں اسے بچانا چایتا اس جال میں پھنسنے سے لیکن میں کچھ نہیں کر پاتا..... آخر کو میری آواز وہی سن پاتے  نا جو احساسات رکھتے ہوں نا کہ ظاہری اور آلودہ جذبات.......
ہاں مگر کچھ سچے پریمی بھی آتے ہیں ان کے سچے عہدوپیماں، وعدے ،وفائیں دیکھ کر تو میرا بھی دل بھر آتا ہے میں دل سے انکے لیے دعا کرتا ہوں........
لیکن وہ ناداں نہیں سمجھتے کہ وہ الگ الگ دیس کے باسی ہیں آخر انھیں لوٹنا ہے اپنے اصل کی طرف،اور شاہد انکا اصل انہیں الگ کر دے انکی مجبوری بن جاۓ...لیکن وہ ناداں بھلا کہاں سمجھتے.  .....
اور پھر  ان کے بچھڑنے کا کرب بھی سہا ہے میرے اس دل نے،کچھ نے تو میری آغوش میں آکر اشک بھی بہاۓ اور مجھ سے سوال بھی کیے کہ تم تو گوا تھے نہ میرے پیار کے .....میری شدتوں کے.......تو پھر کیوں  وہ مجھ سے بچھڑ گیا.... .
میں کچھ نہیں بول پاتا نہ ہی کوئی تسلی دے پاتا......اور کچھ تو مجھ سے نظریں چراتے ،آنکھوں میں نمی لیے ہمیشہ کے لیے میرا شہر چھوڑ جاتےہیں........
ان چہروں میں کچھ ایسے  بھی ہوتے جو فطرت کے شیدائی ہوتے جن کے بڑے بڑے مقاصد ہوتے.......
وہ میرے کنارے، پرسکون گوشے میں یا تو مطالعہ کرنے آتے یا پھر خاموش بیٹھ کر مجھ پر نظریں دوڑاتے اور خدا کی قدرت کو داد دیتے اور اک سہیلی کی طرح میرے دکھ سنتے،محسوس کرتے اور مجھ میں دفن لوگوں کے دکھوں کو بھی محسوس کرتے.......
یہ لوگ مجھ سے باتیں کرتے میرے ساتھ اپنے مقاصد بیان کرتے مجھ بتاتے کے انھوں نے کتنا عظیم انسان بننا ہے کتنا آگے جانا ہے لوگوں کی کس طرح خدمت کرنی ہے......
ایسا نہیں ہوتا کہ ایسے لوگوں کی زندگی میں دکھ نھیں ہوتے،ہوتے ہیں لیکن یہ حوصلہ مند لوگ ہوتے،غموں کو پی کر مسکرانا سیکھ جاتے اور اپنی منزل کی جستجو میں بڑھتے جاتے.....
اور اگر کبھی کوئی اشک انکی آنکھوں سے بہنے کو بےتاب ہو تو چپکے سے بہا لیتے جسے میں آپنی آغوش میں چپکے سے چپھا لیتا.....
یہ لوگ کبھی اپنے گھر والوں کو یاد کرتے تو کبھی اپنے گزرے لمحوں کو اور پھر اپنی منزل کی تگ و دو میں لگ جاتے،جسکو حاصل کرنے وہ یہاں آۓ ہوتے.....
ایسے لوگ میرے دل کے بہت قریب ہوتے ہیں اور میری ہر لہر انکے لیے دعاگو ہوتی......اور اک دن یہ لوگ بہت کامیاب بھی ہوتے.. ....
جب یہ لوگ مجھ سے بچھڑتے تو اداس چہرے، نم آنکھیں ،بھیگے رخسار لیے آخری بار میرے پاس آتے ،ریت پر اپنا نام لکھ کر خود کو زندہ رکھنا چاہتے لیکن میری لہریں انکا نام مٹا دیتیں.وہ مجھے یک ٹک دیکھتے جاتے اور خوب ساری باتیں کرتے جاتے اور پھر فراق کے لمحے آ پہنچتے ....
وہ بوجھل قدموں سے اٹھتے اور مجھ سے دور ہوتے جاتے....... دور جا کر اک آخری پرشکوہ نگاہ مجھ پر ڈالتے اور چلے جاتے ......میں بھی بہت مشکل سے ضبط کے مراحل سے گزرتا ہوا آخر رو پڑتا .....اور پھر نںۓ آنے والوں کا انتظار کرتا.... اور ایسا بلکل نہیں کہ پرانوں کو بھول جاتا بلکہ میں نںۓ چہروں میں پرانوں کو ڈھونڈتا..... کیونکہ اس روۓ زمیں پر آدم ذادوں کی بستیوں میں کہانیاں ہمیشہ اک سی رہتی ہیں ہاں بس کردار بدل جاتے ہیں ...
*******************
تحریر :      ایمی خان






No comments:

Post a Comment