“کیوں؟…کیوں کیا یہ سب؟میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟میرے معصوم بچے نے تمہارا ایسا کیا نقصان کیا ہے؟عدت کے بعد میں اپنے گھر چلی جاتی۔تم سب کو اپنی شکل بھی نہ دکھاتی۔پھر کیا دشمنی نکالی ہے تم نے؟”
وہ ہنسی۔
“ہائے ۔کیا بات پوچھ لی تم نے پیاری نند۔چلو بتا دیتی ہوں۔تمہارا تو پتا نہیں لیکن اس ہمائل خان نے ضرور میرا بہت کچھ بگاڑا تھا۔تو بس اسی کی سزا میں نے تمہیں دی ہے”
وہ چونک سی گئی۔
“حیرت ہو رہی ہے نا؟چلو سنو۔جب ہم ہمائل کے بھائی گلباز کی شادی پر گئے تھے نا…پہلی نظر میں مجھے بھا گیا تھا وہ…”
کانوں کو جیسے یقین نہ آیا کہ اس نے ابھی کیا سنا ہے اس کا منہ کھل سا گیا۔وہ کیا بکواس کر رہی تھی۔
“میں نے اس سے بات کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ تو بات بھی نہیں کرتا تھا۔ویسے نخرے تو سوٹ کرتے تھے اس پر…”
کس قسم کی گھٹیا عورت تھی جو اس کے شوہر پر فدا ہونے کے قصے اسے ہی سنا رہی تھی۔اسے شرم محسوس ہوئی کہ اس کی بھابھی جو بڑی بہن کی مانند تھی اسی کے شوہر پر نظر رکھے ہوئے تھی۔
“میں نے اسے ایک شام اس کے کمرے میں اکیلا دیکھا تو میں نے اس سے بات کی کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں اور مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔پتا ہے اس نے کیا کیا؟”
وہ مٹھیاں بھینچے اسے سنتی رہی۔
“اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارا۔مجھے بد کردار کہا اور کہا کہ میرے جیسی عورتوں کو وہ دیکھنا بھی پسند نہ کرے”
دملہ نے شاک زدہ سے تاثرات لیے اسے دیکھا۔ہمائل نے اس سے کبھی اس بارے میں ذکر نہیں کیا تھا۔الٹا وہ تو حیران ہوتا تھا کہ مسکان کو ان دونوں سے مسئلہ کیا ہے؟
“پھر وہ میرے دل سے اتر گیا۔اسی وقت میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اگر مجھے زندگی میں کبھی موقع ملا تو اس کے یہ الفاظ اور تھپڑ اسے سود سمیت واپس لوٹاؤں گی۔شادی ہو گئی سب کچھ ٹھیک ہو گیا لیکن پھر وہ واجد کی شادی پر واپس آ گیا۔شک تو مجھے بہت پہلے سے تھا کہ وہ تم پر فدا ہے۔اسی لیے مجھے تم زہر لگتی تھی۔پھر جب تمہارا رشتہ آیا تو میں نے اپنے اس وعدے کو دہرایا۔تم سے شادی کے بعد وہ یہاں جب بھی آتا تھا ایسے ری ایکٹ کرتا تھا جیسے اسے وہ سب معلوم ہی نہ ہو۔جیسے وہ مجھے جانتا بھی نہ ہو۔مجھے موقع ہی نہیں مل رہا تھا کہ میں اسے سبق سکھا سکوں۔پھر دیکھو قسمت ،وہ مر گیا”